اس سے قبل ماہ شعبان المعظم کی فضیلت واہمیت کے متعلق لکھاجاچکالیکن اس ماہ میں جہاں کچھ اعمال کرنے چاہیے وہاں کچھ ایسے کام ایسے اعمال ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں جتناکرناچاہیے ہم اس سے بڑھ کر کرتے ہیں کچھ ایسے کام ہیں جنہیں بلکل بھی نہیں کرناچاہیے لیکن ہمارے معاشرے میں ہورہے ہیں اس میں نیک اعمال ذکر،اذکار مسنون دعاوں،نماز روزہ وغیرہ کااہتمام کرناچاہیے رمضان المبارک کی روحانی تیاری میں مشغول ہوناچاہیے رمضان المبارک سے قبل ہی اس کیانوارات برکات کوسمیٹنے کیلئے ہرپل تیاررہناچاہیے جیساکہ نبی اکرم شفیع اعظم سے ثابت بھی ہے اس ماہ کی پندرہویں رات جسے شب برات بھی کہاجاتاہے برات کے معنی ہیں چھٹکاراحاصل کرنے کے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں اس رات دوقسم کے بندوں کی برآت ہوتی ہے ایک برے لوگوں کی خداکی طرف سے جبکہ دوسرے نیک لوگوں کی ذلت وخواری سے احادیث مبارکہ میں بھی اس شب کاذکر ملتاہے ا
س کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم روف الرحیمؐ کو بستر پر نہیں دیکھا تو میں تلاش میں نکل پڑی میں نے دیکھاآپؐ بقیع کے قبرستان میں ہیں آپؐ نے ارشاد فرمایا شعبان کی پندرہویں رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوقلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں اس رات مغفرت بخشش کا پروانہ جاری کیا جاتاہے مگرکچھ لوگ اس رات بھی بخشش مغفرت سے محروم رہتے ہیں ان میں مشرک‘ کی نہ رکھنے والے‘بدعتی‘ زانی‘ رشتہ داری توڑنے والا،ٹخنوں سے نیچے آزارلٹکانے والا‘ ماں باپ کا نافرمان‘ شراب کا عادی‘ جادوگر‘کاہن‘قاتل‘جبری ٹیکس وصول کرنے والا‘ہاتھوں کودیکھ کر غیب کی خبربتانے والاجس کو ہم عرف عام میں نجومی کہتے ہیں میوزک بجانے والا یہ وہ سب کبیرہ گناہوں کی لمبی فہرست ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے جس دلدل میں ہمارے مسلمان پھنس چکے ہیں لیکن بجائے ان گناہوں سے بچنے کے ان سے توبہ تائب ہونے کے ان گناہوں سے کنارہ کشی اختیارکرنے کے اس طرف متوجہ ہوکررجوع الی اللّٰہ کرنے کی بجائے غفلت کی چادر تنے گہری نیند سورہے ہیں پھرہم دعا کرتے ہیں اور سوچتے ہیں ہماری دعاتومانگتے ساتھ ہی قبول ہو جانی چاہیے
حالانکہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جو اعمال ہم کر رہے ہیں ان دعاکی قبولیت تو بہت بڑی بات ہے دعامانگنے کی توفیق بھی عنایت ہوجائے تو غنیمت ہے ہم کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کے بعد بھی اس سے معافی مانگنے میں شرم محسوس کرتے ہیں یا اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں آج کہ دور میں تولوگ سوشل میڈیا پربیٹھ کرایک ویڈیو بنادیتے ہیں کہ میں نے کسی کا دل دکھایا کسی کے ساتھ ناانصافی کی ہوتومعاف کردے حالانکہ اس طرح معافی نہیں ملتی بلکہ اس کے پاس جاکراس سے معافی مانگنے سے ہی حقیقی معافی ملے گی اس ماہ میں قبرستان میں جاکرچراغاں کرنا اس میں رزق وغیرہ پھینکنا پھول پتیاں چادر چڑھانااس کوہرسال اہتمام کے ساتھ سرانجام دینااوراس کام کولازم سمجھنایادرکھیں یہ سب کام ناتو اسلام میں لازم ہیں نا شب برات کے ساتھ انکا کوئی خاص تعلق ہے اور ناہی انکی اتباع کا کوئی حکم موجود ہے
اگرکوئی شخص زندگی میں ایک بارسنت کی نیت سے اس رات قبرستان چلاجائے توکافی ہے کیونکہ نبی اکرم شفیع اعظمؐکاایک بارہی جانا ثابت ہے شریعت میں جوکام جس درجہ میں جتنا ثابت ہو اسے اتناہی کرناچاہیے اسی کانام اتباع ہے اسی طرح
اس رات میں نوافل،تلاوت اجتماعی ذکر،اذکار اور نفلی عبادات کااہتمام کیاجاتاہے حالانکہ نفل عبادت میں تنہائی وخلوت مقصود ہوتی ہے جتنا ممکن ہوسکے اپنی ہمت کے مطابق تنہائی میں عبادت میں مشغول رہیں یہ فضیلت والی رات ہے اس میں شوروغل کرنا,میلے کی طرح چہل پہل لگانا اوراجتماع چراغاں کرکہ اس کا اظہارکرنا مناسب نہیں قیمتی لمحات کو گوشہ نشینی اختیار کرکہ اپنے وقت کوقیمتی بنائیں اپنے رب کو راضی کریں اسی طرح اس دن روزہ رکھاجاتاہے نبی اکرم شفیع اعظم 13/14/15کاروزہ کا اہتمام فرماتے تھے لہذا اس سنت پرعمل کرتے ہوئے اہتمام کیاجائے توموجب اجروثواب ہوگا
اس رات میں ایک انتہائی فضول کام کیاجاتاہے جس میں پٹاخے چلانا،آتش بازی کرنا،یہ سب فضول کے ساتھ ساتھ ایسی خرافات ہیں جن سے شیطان توخوش ہوسکتاہے رحمٰن نہیں یہ سب وہ کام ہیں جن سے انسان اللّٰہ کاقرب حاصل کرنے کی بجائے مغفرت،بخشش اورنجات سے محروم کردیاجاتاہے اسے پتہ بھی نہیں چلتاحاصل کلام یہی ہے کہ اس ماہ میں فرائض واجبات سنن کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی کیاجائے اللہ کی یادمیں جتنا زیادہ وقت ہوسکے گزارا جائے توبہ تائب ہواجائے حقوق اللّٰہ کے ساتھ حقوق العباد کابھی خصوصی خیال رکھاجائے جتنے بھی حرام کام یاگناہ کے کام ہیں ان فورا چھوڑکرکنارہ کشی اختیار کی جائے صرف ایک رات نہیں بلکہ پوراسال اسی طرح اہتمام کیا جائے اس شب فضول باتوں گلی محلہ چوک چوراہوں پر ٹولیوں کی شکل میں بیٹھنے کی بجائے عبادت ذکر اذکار تلاوت قرآن مجید میں وقت صرف کیاجائے دین اسلام ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح واضح ہے اس میں کوئی بھی بات کوئی بھی حکم پوشیدہ نہیں رکھاگیا ہرہرمعاملہ میں ہماری مکمل راہنمائی کی گئی ہے اس لئے ہمیں دین پر چلناہویا دینی معاملات کوسمجھنا ہو ہمیں چاہیے ہم اپنے مقامی علماء کرام کی خدمت میں حاضر ہوں ان سے اپناتعلق مضبوط بنائیں اور دین اسلام سیکھتے ہوئے مکمل راہنمائی لیں یہی ہمارے لئے بہتربھی اور ذریعہ نجات بھی۔