127

سی ای او ایجوکیشن کے چھاپے اساتذہ میں کھلبلی

نوید ملک،پنڈی پوسٹ/ارض پاک میں عوامی خدمت کے پیش نظر قائم تمام سرکاری اداروں کی کارکردگی سے عوام میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے میڈیا کی برق رفتاری و سوشل میڈیا کی بے لگامی کے سبب پلک جھپکنے میں چیزیں سامنے آجاتی ہیں ماضی میں سیاسی مفادات کے حصول و اپنے ووٹ بینک میں اضافے کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں افسران و اہلکاروں کو ڈھیل دیتے رہے الیکشن و پولنگ میں سرکاری سکولز کے اساتذہ کے موثر کردار کے سبب سیاست دانوں کے گہرے روابط موجود ہیں اور اسی امر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اساتذہ نے اپنے فرائض منصبی کو بطریق احسن ادا کرنے کے بجائے وقت گزارنے کی پالیسی اختیار کر لی موجودہ حکومت نے اب انتظامیہ و ضلعی افسران کو متحرک کیا ہے جس کے سبب اب کاہل افسران و عملہ پریشان دکھائی دے رہے ہیں پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی اکثریت اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے سبب والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں کو طرف مائل ہیں اساتذہ نہ وقت پر سکول آتے ہیں اور نہ ہی توجہ سے پڑھاتے ہیں ضلع راولپنڈی میں محکمہ تعلیم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ارتھارٹی کاشف اعظم ملک نے ضلع بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کے تواتر سے چیکنگ کر رہے ہیں جس سے اساتذہ کی طرف سے جاری روایتی سستی و عدم دلچسپی سامنے آ رہی ہیں اب تک وہ گوجرخان کلر سیداں ٹیکسلا و دیگر تحصیلوں میں دوران سکولز کی چیکنگ کے دوران فرائض سے غفلت برتنے پر 50 سے زائد اساتذہ و دیگر عملے کو معطل کر کے انکے خلاف محکمانہ کاروائی کے تحت انکوائری کے احکامات جاری کر چکے ہیں سی ای او کاشف اعظم کے ان دبنگ اقدامات کے سبب اساتذہ تنظیموں کے عہددار ان کے خلاف دکھائی دے رہے ہیں طویل عرصے سے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو چیک موثر انداز میں نہ کرنے کے سبب اب اچانک افسران کے متحرک ہونے پرنہ طرف پریشان ہیں بلکہ راہ فرار کی تلاش میں ہیں پنڈی پوسٹ کی ٹیم و راقم کے ہمراہ کلیام ا عوان مندرہ و دیگر علاقوں میں قائم سرکاری تعلیمی اداروں میںاسسٹنٹ کمشنر گوجرخان حرا رضوان و سی ای او ایجوکیشن کاشف اعظم کے ہمراہ کا وزٹ کے دوران اکثریت سکوز میں اساتذہ کی عدم دلچسپی سامنے دکھائی دے گندے واش رومز‘ نہ واٹر فلٹر نہ واٹر کولر گندے کلاس رومز اساتذہ کلاس رومز کے بجائے اجتماعی گپ شپ میں مصروف ‘ کئی تعلیمی اداروں میں 9 ماہ سے بچوں کی ہوم ورک کی کاپیاں چیک نہیں کئی گئی درجنوں مسائل سامنے آئے اور یہ سوچ بھی کہ کیا ان سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں گے مستقبل میں ؟ کیا اساتذہ اپنے منصب سے انصاف کر رہے ہیں ؟ ادھر متعدد سرکاری سکولز کے اساتذہ اپنی تعریف لکھنے کے بارے کہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہر سرکاری سکول کے اساتذہ نے اپنے آپ کو صرف تنخواہ لینے تک محدود کر رکھا ہے بڑے بڑے سرکاری تعلیمی اداروں میں 150 سے زائد بچے زیر تعلیم نہیں جبکہ 10 مرلے کے نجی سکول میں 500 بچے پڑھ رہے ہیں سرکاری سکولز کے اساتذہ کی عدم دلچسپی کے سبب ماضی کے درخشاں تعلیمی ادارے اپنے اہمیت و افادیت کھو رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ اپنا انداز بدلیں اور اپنے منصب و ذمہ داریوں کا لحاظ رکھیں موجودہ حکومت کی طرف سے ضلعی انتظامیہ و تعلیمی افسران کو متحرک کرنے عوام و بالخصوص جن والدین کے بچے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں خوش ہیں سی ای او کاشف اعظم کےاچانک وزٹ کے ثمرات سامنے آ رہے ہیں اساتذہ اب وقت پر سکولز آ رہے ہیں اور کلاس رومز سمیت سکول کو بہتر بنا رہے ہیں میکن سبز گبند کے فرمان ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ” کو سامنے رکھتے ہوئے سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ۔دنیا وآخرت میں کامیابی کے حصول کے لئے.( راقم کی والدہ بھی معلم رہی اور سپروائز بھی کیا سرکاری اداروں کو کلیام و مندرہ میں درجنوں پرائمری و مڈل سکولز کے قیام میں انکا کردار رہا جو آج بھی قائم ہیں )۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں