سیاسی ومعاشی صورت حال 234

سیاسی ومعاشی صورت حال

پی ڈیم ایم کا جنازہ تو نکل ہی گیا ہے اور اب جنازہ پڑھ کر اسے دفن کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اکثریت کے باوجود سینیٹ کا چیئرمین نہ بن سکے تواس کے قائد حزب اختلاف کی نامزدگی پر ہاتھا پائی کر کے اسے تماشہ بنا دیا گیا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جیل میں ہے تو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نے کونسا کارنامہ سر انجام دینا تھا ویسے بھی دیکھا جائے تو سینیٹ میں ہر دو قائدین حزب اختلاف ہی تو ہیں اور یہ 1985کی غیر سیاسی اسمبلی کی پیداوار اور سلیکٹڈ سیاست کے مہرے مزیدیہ کہ بچگانہ سیاست کی بے وقت راگنیاں اورا س پر مولانا فضل الرحمن ہاتھ ملتے رہ نہ جائیں تو دیوار سے ٹکر ماریں لیکن سازش بڑی گہری دکھائی دے رہی ہے آہستہ آہستہ سامنے آئے گی ہو سکتا ہے کہ سارا سیاسی نظام ہی سلیکٹڈ ہو کر نہ رہ جائے کوئی بتائے کہ یوسف رضا گیلانی کا پی ڈیم ایم کی قومی اسمبلی میں اقلیت کے باوجود انتخاب جیتنا کس جمہوری پیمانے پر درست تھا اور پھر چیئرمین کے انتخاب میں اکثریت کے باوجود ہارنا اور صافق سنجرانی کا جیتنا کونسی اصولی کامیابی تھی؟اور پھر یہ کہ استعفوں پر اتنا اصرار کیوں کیا گیا؟ جو ایٹم بم حکومت پر گرانے کا ارادہ تھا وہ پی ڈیم ایم کے ہاتھوں ہی میں پھٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی لانگ مارچ کی تحریک بھی ہوا میں تحلیل ہو گئی سیاست کا یہ اناڑی پن، اناڑی حکومت کے خوب کام آیا لیکن اب اس کے پاس جو اپوزیشن مخالف ڈگڈگی تھی وہ بھی ختم ہو گئی میدان خالی ہو گیا اور اب یہ اپنی ہی ناک کے نیچے ہونے والی ہو شربا کرپشن پر اپنی ہی مافیاز کے خلاف محاذ آرا ہوتی دکھائی دے رہی ہے شوگر ملز مالکان کو ایف بی آر کی جانب سے چار سو انہتر ارب روپے کے ٹیکس نوٹس جاری کیے جارہے ہیں اور ایک سو دس ارب روپے کی مالیت کے سٹہ بازی کا بھید پانے کے بعد ایف آئی اے کو متحرک کر دیا گیا ہے اس شوگر مافیا کے سرغنوں میں وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے ایک بڑے لیڈر اور شہباز شریف کے نام شامل ہیں مزید یہ کہ وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور سیکرٹری پٹرولیم کو برطرف کرتے ہوئے پٹرولیم کے کاروبار میں اربوں کے گھپلوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے سیاسی مخالفین کے خلاف احتساب کی مہم میں پشیمانی اٹھانے کے بعد احتساب کے عمل میں جان ڈالنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں اور جس تعمیرات کے شعبے پر معاشی بحالی کے لیے مکمل تکیہ کیا جارہا تھا اب اس پر ایک تاریخی یوٹرن لے لیا گیا بیس ہزار سے زائد پراپرٹی اور تعمیرات کے شعبے سے متعلق ٹیکس ریٹرنز والے سٹیٹ ایجنٹس اور سٹیٹ بلڈرز کو چار صفحات پر مشتمل چھیاسی سوالات پر مبنی سوالنامہ جاری کر دیا گیا ہے وزیراعظم نے تاریخ کی سب سے بڑی کالے دھن کو سفید کرنے والی سکیم جاری کی تھی کہ جو بھی اسٹیٹ اور تعمیراتی میدان میں پیسہ لگائے گا اس سے کوئی سوال پوچھا جائے گا نہ کوئی کاروائی ہو گی یہ سکیم تیس جون تک تھی اور تاریخ بڑھائے جانے پر مشاورت ہو رہی تھی کہ فائنانشل ٹاسک فورس نے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر فائنانسنگ ٹیررازم مہم کے تحت حکومت کو مجبو رکر دیا کہ وہ تعمیرات کے شعبہ سے متعلق مافیاز کے کالے دھن اور ان کے گاہکوں کی دولت کا پتہ چلائے اور اس کے ساتھ ہی تعمیراتی شعبے سے معاشی اڑان کا خواب چکنا چور ہو گیا یہ ساری مافیا ز پاکستان کے مفت خور کرایہ خوری میں دلچسپی رکھتی ہیں ایسے غیر پیدوارای اور مفت خور معاشی نظام کے تحت کاروبار ریاست تو چلنے سے رہا لہذا اس خلا کو ہماری وائسرائی نوکر شاہی نے عالمی سامران کا کاسہ لیس بن کر اور قرض خوری سے پورا کیا۔ اب یہ قرض خوری ایک ایسے پھندے میں بدل گئی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے وفاقی حکومت کے
وصول کردہ ریونیو ز (آمدنی) فقط قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی ناکافی ہیں دفاع ریاستی کاروبار اور ترقیاتی منصوبے سب بیرونی و اندرونی قرضوں کے مرہون منت ہیں وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بھی سینیٹ کے انتخابات میں ناکامی کا بڑا خوفناک بدلہ لیا ہے آئی ایم ایف کے ساتھ جائزوں میں موصوف نے وہ تمام شرائط مان لی ہیں جو پہلے کبھی کسی نے نہیں مانی تھیں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے ریاست پاکستان سے ناک رگڑوائی گئی ہے سٹیٹ بنک کو پاکستانی حاکمیت سے آزاد کرتے ہوئے اس کی تکمیل آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے جیسے مغلیہ حکمرانوں نے مالیاتی نظام ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کیا تھا اب مالی و مالیاتی فیصلے کرنے،شرح تبادلہ، شرح سود اور شرح افراط زر طے کرنے کامکمل اختیار سٹیٹ بنک کو دے دیا گیا ہے حکومت کو بجٹ خسارے کے لیے کمرشل بنکوں سے قرض لینا ہو گا اور بیرونی قرضوں کی گارنٹی بھی سٹیٹ بنک نہیں دے گا ذرا سوچئیے کہ ترقی یافتہ ممالک مرکزی بنک ڈالرز،یوروز اور پاونڈز اور دیگر کرنسیاں چھاپ چھاپ کر مشینوں کی بحالی کے جتن کر رہے ہیں اور لوگوں کو سوشل سیکیورٹی دے رہے ہیں اور دست نگر ممالک کا نیو لبرل آرڈر کے تحت گلا گھونٹا جارہا ہے آئی ایم ایف سے دیگر شرائط کے تحت نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو بجلی کے نرخ طے کرنے کی آزادی کے ساتھ اگلے چھ ماہ میں بجلی کی فی یونٹ کی قیمت میں تقریبا ًنو روپے کے اضافے سے صارفین پر ایک ہزار نو ارب روپے کا بوجھ لادا جارہا ہے دس فی صد سرچارج اس کے علاوہ ہو گا اس طرح سوئی نادرن گیس کمپنی نے گیس کے نرخوں میں دو سو بیس فی صد اضافے کا مطالبہ کیا ہے او ر سوئی ساؤدرن گیس کمپنی نے بھی گیس کی قیمت بڑھانے کی تجویز دی ہے معاملہ یہیں ختم نہیں ہو تا ایک منی بجٹ بذریعہ آرڈیننس آگیا ہے اور ایک سوچالیس ارب روپے کے استثنیٰ ختم ہو گئے ہیں اور اگلے بجٹ میں سات سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے پر اتفاق ہوا ہے حیرت کی بات ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ادارتی و مالیاتی کٹوتی کی جارہی ہے جبکہ نوکر شاہی پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں بامعنی اصلاحات کے بجائے اس پر اپنا کرپٹ کنٹرول رکھنے پر مضر ہے معاشی نظام میں کرپشن کی تطہیر قابل تعریف ہے لیکن اداتی اصلاحات کے بغیر یہ ایک ڈرامے بازی ہو گی پی ڈیم ایم کو یاد ہونا چاہیے کہ وہ ان حقیقی عوامی معاملات پر کب توجہ دے گی اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہو یا پیپلزپارٹی کا عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں عوام تو سیاست کے گناہوں کا خمیازہ بھگتتے رہے ہیں اور بھگتتے رہیں گے کہیں سے کوئی تو عوامی سماجی حق کا نعرہ لے کر اٹھے کہ ایک چنگاری پورے گلستان کو منور کر سکتی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں