چوہدری خرم سلطان
موجود ہ حکومت جو کہ تیسری دفعہ عوام کی خواہشات سے منتخب ہوئی اگر مشاہدہ کریں تو دو بار اس پارٹی کی حکومت کو الزامات لگا کر چلتا کیا گیالیکن عوام کو ہمیشہ بعد میں ان سازشوں کا علم ہوا اور یہ ایک حقیقت ہے تینوں دفعہ جب مسلم لیگ (ن) کو حکومت ملی تو اس وقت ملک انتہائی خستہ حالت میں لڑکھڑا رہا تھا لیکن مسلم لیگ ن نے نئے سرے سے اس کی تعمیر نو کرکے ملک میں اور عوام میں جان ڈالی اس بات کا سب کو علم ہے لیکن ہم مجموعی طور پر بھولے‘سادہ اور نیک نیت قوم ہیں ہمیں بعد میں علم ہوتا ہے کہ ہم سے غلطی ہو گئی اور ہمیشہ ہم اس غلطی سے شرمندہ ہوئے اب جب کہ بار بار غلطی کرنے والے لوگوں نے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا عزم کیا تو ہمارے محب وطن بچوں کو استعمال کیا جا رہا لیکن اب انشاء اللہ ہمارے نوجوان اپنے بڑوں سے مشورہ لے کر اس ملک کو بحرانوں سے نکالیں گے اور اس قوم کو ترکی کی قوم کی طرح ہر غیر آئینی اقدام سے بچانے کے لیے آئین کی بالادستی کے لیے پیش پیش ہوں گے 2013 میں تمام الزمات کے باوجود عوام نے مسلم لیگ ن کو منتخب کیا اور ان کے حقیقی احتساب کا حق عوام کو ہے جو کہ 2018 میں ہونا چاہے جو الزامات موجودہ ہیں ان کا کسی بھی طرح سے تعلق 2013 کے بعد نہیں اب یہ دیکھئے کہ یہ سلسلہ شروع کہاں سے ہوا تو اس بات میں کسی کو شک نہیں کہ پانامہ لیکس پاکستانی عوام کی تحقیق اور تفتیش نہیں یہ انٹرنیشنل قوتوں یا میڈیا کا سامنے لایا ہوا سکینڈل ہے اب سوال یہ ہے کہ غیر مسلم قوتیں کیا پاکستان میں استحکام چاہتی ہیں تو آپ کا جواب ہو گا یقینا نہیں۔تو پھر اس ملک کی بہتری اس پانامہ لیکس سے کیسے ممکن ہے اب بات رہ گئی اخلاقیات کی تو اس کو بھی ذرا کھلے دل اور دماغ سے دیکھتے ہیں پاکستان تحریک انصاف جوکہ 2013 میں الیکشن ہار گئی اس کا اخلاقی حق بنتا تھا کہ منتخب حکومت کی فتح تسلیم کرتی اور ملک کو بحران سے نکالنے میں حکومت کی مدد کرتی اس کے بر عکس 2013 سے لے کر 2017 تک شاید کوئی دن ہو جس دن اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی نے وزیر اعظم سے استعفی نہ مانگا ہو پہلے دھاندلی‘ پھر 35 پنکچر‘امن وامان‘بجٹ‘ملکی معیشت‘ میٹرو‘اورنج ٹرین‘ گیس‘سڑکئں‘ پل‘موٹروے‘بجلی‘کرکٹ‘ کرپشن اور احتساب ان لوگوں نے کس کس بات کو جھوٹ پہ مبنی الزامات لگا کر استعفیٰ نہیں مانگا کیا چائنہ سربراہ کے آنے پہ انہوں نے اخلاقیات دکھاتے ہوئے دھر نہ وقتی طور پہ چھوڑا‘مسلم ممالک کے طاقتور اور دوست ملک ترکی کے سربراہ کے آنے پہ اسمبلی میں گئے۔ چلیں قوم کے لیے نہ سہی اخلاقی طور پہ گئے کیا خود استعفیٰ دینے کے بعد جو کہ حکومت وقت نے قبول نہ کیا تو قانونی اور اخلاقی طور پہ اپنی سیٹ خالی کیں؟تو اس قدرنیچا دکھانے کے بعد کوئی بھی انسان ہو کیا وہ ا خلاقی طور استعفیٰ دے گا یقینا نہیں۔ اب بات رہی انصاف کی تو تمام پاکستانی قوم جانتی ہے کہ جو ادارے عوام کے لیے بنائے گے ہیں مثلا‘عدلیہ‘ فوج ان میں شایدہی کوئی چیف آف آرمی سٹاف یا چیف جسٹس ہو جس نے اپنی آئینی مدد پوری کئے بغیر استعفیٰ دیا ہولیکن جو ادارہ خود عوام اپنے لئے بناتی ہے یعنی پارلیمنٹ اس کے چیف وزیراعظم ایک بھی ایسا نہیں جس کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی گئی ہو میری یہ بات اس قوم کو ان پاکستانیوں کو سمجھ آ چکی ہے پھر بھی اگر اس کیس میں کسی کو شک ہے کہ سازش نہیں ہو رہی تو آفرین ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن جب بھی حکومت میں آئی تو ملک کو ترقی اور معاشی استحکام ملا شاید آج کے دور میں اس کو کرپشن کہتے ہیں اس حکومت کا آئینی اور اخلاقی حق ہے کہ اپنی مدد پوری کریں اور عوام کا آئینی اور اخلاقی حق ہے کہ جنرل الیکشن 2018 میں اپنے لئے نئی حکومت کو منتخب کریں یہ ملک عوام کا ادارے عوام کے لئے اور حکومت عوام کی ہی ہونی چاہئے ہم اپنا یہ بنیادی آئینی‘قانونی اور اخلاقی حق لے کر رہیں گے اور اپنی پارٹی مسلم لیگ ن اور اپنے لیڈران کے ساتھ بھر پور انداز میں کھڑے رہیں گے یہ فیصلہ اس علاقہ‘شہر‘صوبہ اور ملک کے عزت دار اور شرفا ء کا ہے ہم مسلم لیگ ن کی آواز اور طاقت ہیں ہم اپنے اعلیٰ اداروں کی عزت اور ان کا احترام کرتے ہیں لیکن احتساب بہت ضروری ہے لیکن آئین اور قانون کے تابع اور مساوی بنیادوں پہ اگر ایک پارٹی‘ خاندان یا فرد واحد کے لیے ہوا تو مکمل طور پہ سازش سمجھی جائے گی فیصلہ انصاف پہ ہونا چاہئے نہ کہ تاریخ مرتب کرنے کے لیے نہیں بلکہ انصاف کی بالادستی کے لیے کہنے کو تو اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن جمہور نام کی جمہوریت‘ (ڈیموکریسی)لوگوں کی حکو مت (الیکشن)لوگوں کے ذریعے (پارلیمنٹ)لوگوں کے لیے (ادارے)کہنے کو جمہوریت یہ ہے لیکن ہمارے ملک میں صرف ادارے لوگوں کے لیے اور کچھ بھی نہیں‘محترم عدالت عالیہ سے گذارش ہے کہ اگر 62‘63 کو لیا جائے تو جیسے عدلیہ کہہ چکی ہے کہ شاید کوئی بھی پارلیمنٹرین اس پہ پورا نہیں اترتا تو پھر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ پارلیمنٹ کو ہونا ہی نہیں چاہئے تو پھر کس کی طرف اشارہ دیا گیا اس سے ہمارے دل اور دماغ میں گمان گزرتا ہے کہ کوئی سازش تو نہیں ہو رہی اگر بات آمدن سے زیادہ زندگی گزارنی ہے تو پھر اس بائیس کروڑ عوام میں کوئی نہ بچے گا چاہے وہ آٹھ ہزار لینے والا دیہاڑی دار مزدور ہو یا اسی لاکھ لینے والا کسی ادارے کا ملازم ہو سب اس کی زد میں آئیں گے یہ فیصلہ قوم کا کا فیصلہ ہے
94