100

سیاست اور اخلاقی اقدار/مشتاق علی

دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ایسا کام جس کی انجام دہی میں نہ کسی سرمایہ کاری کی ضرورت، نہ کوئی تعلیمی معیار مقرر، نہ جسمانی مشقت درکار اور نہ کسی سفارش یا رشوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ اپنی زبان کو تھوڑی سی حرکت دینا پڑتی ہے اور نہایت ہی قلیل وقت میں مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فعل اور عمل ہے کہ جس کا ارتکاب دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہر فرد دن میں کئی مرتبہ کرتا ہے اور یہ دُنیا کے طول و عرض میں رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود سے آزاد، ہر مرد و زن، چھوٹے بڑے، آجر اور اجیر اور سیاست دانوں میں یکساں مقبول اور رائج العمل ہے۔ انسانی زندگی سے جڑے معمولاتِ زندگی کی بجا آوری میں اِس سے بڑھ کر کوئی اور عمل اتنا آسان نہیں اور وہ ہے ’’نقطہ چینی یا الزام تراشی‘‘۔ دراصل ایسا عمل کرنے والا فرد اِس حقیقت سے نا آشنا ہوتا ہے کہ وہ اس طرح سے کتنی بڑی برائی کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے۔ چوں کہ بلاجواز نقطہ چینی، الزام تراشی، بہتان لگانا، دروغ گوئی اور غیبت قریب قریب ایک ہی برائی کے سارے رخ ہیں۔ بلا جواز نقطہ چینی یا الزام تراشی کے عمل سے ان برائیوں میں سے کوئی ایک برائی ضرور سرزد ہورہی ہوتی ہے۔ کسی فرد نے کسی دوسرے فرد پر کسی قسم کی بلاجواز نقطہ چینی یا الزام تراشی کی اور اگر وہ برائی اُس میں موجود نہیں تو یہ ’’بہتان اور دروغ گوئی‘‘ کی شکل اختیار کرے گا اور اگر موجود ہے تو پھر ’’غیبت‘‘ کے زمرے میں آجائے گا۔ حضورِ اکرمؐ نے بھی اِس کی تصریح فرمائی ہے۔ ابُو داؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ سے پوچھا گیا، غیبت کیا ہے ۔ فرمایا۔ ’’تیرا اپنے بھائی کا ذکر اِس طرح سے کرنا جو اُسے ناگوار ہو‘‘۔ عرض کیا گیا اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو تو۔ بیان فرمایا۔ ’’تو تُو نے اُس کی غیبت کی اور اگر وُہ اُس میں نہیں ہے تو تُو نے اُس پر بہتان لگایا‘‘۔ یہ فعل نہ صرف ایک اخلاقی گناہ ہے جس کی سزا آخرت میں ملنے والی ہے بلکہ ایک اِسلامی مملکت کے قانون کے مطابق قابلِ سزا ہے۔ دورِ حاضر میں اِس فعل کا ارتکاب بڑے فخر ، دھڑلے اور برسرِ عام کیا جارہا ہے اور اِسے کوئی برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ دراصل اِس کے پسِ پردہ کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کی مقبولیت کے حسد میں اُس کی ساکھ کو بدنام کرکے اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کرتا ہے۔ کوئی از خود کچھ نہ کر دکھانے کے باوجود سستی شہرت کی ہوس میں یہ طریقہ اپناتا ہے۔ کوئی اپنی ذاتی رائے کو مقدم سمجھتے ہوئے اُس سے اختلاف کرنے والے کو نیچا دکھانے کے لئے ایسا کرتا ہے۔ کوئی اپنی ناقص کارکردگی اور اپنے اندر موجود برائیوں کو عوامی نقطہ چینی سے بچاؤ کی خاطر توجہ دوسری جانب مبذول کروانے کی غرض سے اِس اندازِ دفاع کا سہارا لیتا ہے۔ اور کچھ افراد عادت سے مجبور ہوکر مشغلے کے طور پر یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ الغرض یہ برائی ہمارے معاشرے میں اتنی شدت سے سرایت کرچکی ہے کہ اِس کے وار سے شاید ہی کوئی فرد بچ سکا ہو۔ البتہ ہمارے سیاستدان کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اِس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ جسے دیکھیں یا سنیں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا نظر آتا ہے۔ اور اپنے آپ اور اپنی قیادت کو فرشتہ سیرت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس برائی کو الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے بہت پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ تمام ٹی وی چینلز کی TV talk میں مدعو حکومتی یا اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان الزام تراشی میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات بات تلخ کلامی سے آگے نکل کر ہاتھاپائی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ دورانِ گفتگو انہیں ضابطہء اخلاق کی کوئی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی احساس کہ انہیں پوری دُنیا میں کروڑوں افراد دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اُن کی ناشائستہ، غیر مہذب، غیر پارلیمانی اور اخلاقیات کے منافی طرزِ گفتگو سے ہمارے ملک و قوم کے بارے میں کیسا Image مرتب ہوتا ہوگا۔ عوام بذریعہ حقِ رائے دہی اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے اُنہیں منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتی ہے۔ مگر وہاں پہنچ کر اپنا نصب العین ہی بھلا دیتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں جس سے عوامی مسائل عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ حضرات ایسا مت سوچیں کہ ان کی کارکردگی عوام سے مخفی رہے گی۔ عوام ہر سیاست دان کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے ہوئی ہوتی ہے۔ اور جب او رجیسے اُسے اختیار حاصل ہوتا ہے اُس کا برملا اظہار بھی کرتی ہے اور استعمال بھی جس کی مثال 2013 کے عام انتخابات اور بعد ازاں منعقدہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات ہیں۔ عوام نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو مکھن سے بال کی طرح باہر نکال پھینکا۔ اور 2018 میں ہونے والے انتخابات میں بھی سیاست دانوں کو عوام سے ایسی ہی توقعات وابستہ رکھنی چاہییں۔ اِس وقت ملکی سیاست جس ڈگر پر چل رہی ہے اُس سے عوامی مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ احتجاج، دھونس دھاندلی اور الزام تراشی کو کس صورت میں عوام دوست کہا جائے۔ عوامی مسائل حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ کاوشوں سے حل ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں اپوزیشن اور حکومت متضاد سمتوں میں چلیں تو وہاں یہی کچھ ہوگا جو ہورہا ہے۔ دونوں فریقین اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ عمل وہی قابلِ ستائش اور مفید ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے لئے مضر ثابت نہ ہو۔ جو عمل دوسروں کے لئے نقصان اور ضرر کا سبب بنے وہ ناقابلِ قبول اور قابلِ مذمت ہے۔ اسلامی تعلیم بلند عزائم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ قرآن میں بارہا آگے بڑھنے اور ترقی کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر سب کچھ احترامِ انسانیت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھنے یعنی اقتدار کی خواہش اور حصول ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ مگر اِس تگ و دو میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے، جو ہماری مذہبی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں