ثاقب شانی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
حافظ ملک سہیل اشرف کو پاکستان تحریک انصاف تحصیل کلر سیداں کی صدارت مل گئی،یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے لئے آمدہ عام انتخابات میں مفید ثابت ہو گا حافظ سہیل اشرف اسودہ ،مستحکم، معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہیں مسلم لیگ ق سے وابستہ رہے بطور تحصیل ناظم تحصیل کلر سیداں کے اولین ایڈمنسٹریٹر منتخب ہوئے اور بعد ازاں حلقہ پی پی پانچ سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر 2013کے عام انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے الیکشن لڑا اور لگ بھگ ستائیس اٹھائیس ہزار ووٹ حاصل کر کے ثابت کیا کہ ان کا اپنا سیاسی دھڑا اس حلقہ میں موجود ہے، پی ٹی ائی میں شمولیت کے بعد سے شنید کی جارہی تھی کہ حافظ سہیل اشرف کارگر تحصیل صدر ثابت ہو سکتے ہیں اور انہیں صدارت ملنی چاہیئے ، اندرونی طور پرحافظ سہیل اشرف کی شمولیت کو تو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا مگر ان کی تمام نظریاتی وابستگان پر فضیلت کی بابت ناک بھنویں ضرور چڑھائی گئیں۔ ہارون کمال ہاشمی اور آصف کیانی اس سے قبل منصب صدارت پر فائز رہ چکے ہیں فرح آغا اور ہارون ہاشمی نے اس تحصیل میں نامساعد حالات میں گراونڈ زیرو سے آغاز کیا اور پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے گرانقدر جدوجہد کی جب آصف کیانی کو تحصیل بھر میں پھلتی پھولتی پی ٹی آئی کی قیادت سونپی گئی تو صدارت ملنے سے قبل ان کو صدارت دیئے جانے کی پیشگوئی کوئی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک یہ پی ٹی آئی کے فرنٹ لائنرز میں کہیں نظر نہیں آتے تھے، ہارون کمال ہاشمی کو ضلعی قیادت سونپی گئی تو تحصیل کی صدارت آصف کیانی کی جھولی میں آگری اس وقت بھی کئی نمایاں نظریاتی کارکنان نظر انداز ہوئے یہ بھی سْنا گیا کہ شاید سینئر کارکنان صدارت کا عہدہ لینے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں تھے، تنظیمیں تحلیل ہوئیں تو آصف کیانی پْر اْمید تھے کہ انہیں ایک بار پھر تحصیل صدر چْن لیا جائے گا ہارون کمال ہاشمی کو شمالی پنجاب میں سینئیر نائب صدر بنایا گیا تو توقع بھی یہی کی جارہی تھی آصف کیانی کی اْمید برآئے گی ،مگر ضلعی صدر راولپنڈی زاہد کاظمی نے حافظ ملک سہیل اشرف کو تحصیل کلر سیداں کا صدر نامزد کر دیا اس فیصلے کو پی ٹی ائی کے مضبوط سنجیدہ اور عمر رسیدہ دھڑے کی تائید حاصل تھی مگر جذباتی نظریاتی کارکن ناخوش نہیں ہوئے تو خوشی کے شادیانے بجتے نظر آئے نہ ڈھول تاشے‘ نہ مبارکبادوں کے سلسلے جو اکثر خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے، نظریاتی کارکنان نے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے ملاقات کر کے عندیہ دیا کہ وہ نظریاتی کارکنان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ قبل ازیں تنظیمی ڈھانچے کے غیر فعال ہونے پر کوارڈینیشن سیٹ اپ لایا گیا تھا سوال یہ ہے کہ کیا فعال تنظیمی نظام کی موجودگی میں بھی مساوی سیٹ اپ کی سبیل نکل سکتی ہے، اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو ایسا یہاں بھی ممکن ہو سکتا ہے لیکن فی الحال اس بابت محض قیاس ارائی کی جاسکتی ہے۔گزشتہ عام انتخات میں پی ٹی ائی کے ٹکٹ کا فیصلہ اس قدر تاخیر سے ہوا کے ہارون ہاشمی کو الیکشن لڑنے کے لئے بمشکل چند دن ملے سو بھرپور الیکشن کمپین تو کجا حلقہ بھر کا دورہ کر لینا بھی جوئے شیر لانے کے برابر تھا ، افرادی قوت ، وسائل کی کمی انتخابی منصوبہ سازوں اور حکمت عملی وضع کرنے والے سفید ریشوں کی کمیابی اور عملی طور پر مستعد منظم دستے کی عدم دستیابی جیسے مسائل کی سبب وہ نتائج نہ مل سکے جو ملنے چاہیے تھے بحرحال ان سب مسائل کے باوجود ہارون ہاشمی نے لگ بھگ سترہ ہزار ووٹ حاصل کر کے اس حلقے میں پی ٹی ائی کا قابل ذکر ووٹ بینک قائم کیا ، پس منظر پیش کرنے کا سبب امدہ الیکشن ہیں اگر پی ٹی ائی نے مسلم لیگ ن کے اس مضبوط حلقے میں تگڑا مقابلہ کرنا ہے تو چھوٹے چھوٹے اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہو گا یہ بھی یاد رکھیں تحصیل دو انتخابی حلقوں میں منقسم ہے پی پی دو والے اپنی حکمت عملی بنائیں گے تو پی پی پانچ والوں کو اپنا الیکشن پلان بنانا پڑے گا اور پی پی پانچ کا مرکز کلر سیداں ہے دو مختلف جماعتوں کی ٹکٹس پر مجموعی طور پر چالیس پینتالیس ہزار ووٹس لینے والے اب ایک جماعت میں ہیں تنظیمی اعتبار سے بھی ہارون ہاشمی، راجہ ساجد جاوید، اصف کیانی نے جماعت کو پاوں پر کھڑا کر دیا ہے ہمیشہ نظریاتی کارکنان کا ساتھ شامل حال رہا سب کا تذکرہ ممکن نہیں ، نظریاتی ورکرز بہت سے سیاسی سبق سیکھ چکے ہیں، یوتھ ایکٹو ہے ان اعشاریوں سے ایک تگڑے الیکشن کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے بشرط کے تمام جماعتی قوتیں تحصیل صدر کی قیادت میں متحد ہوں اور جسے بھی مرکزی قیادت الیکشن لڑنے کے لئے گرین سگنل دے خواہ وہ حلقہ کے کسی بھی علاقے سے متعلق ہواس کے کندھے سے کندھا ملا کر میدان میں اْتریں۔خیر یہ تو مستقبل قریب میں ہی معلوم ہو پائے گا کہ تمام بہتریوں کے باوجود پی ٹی ائی میں نظریات اور جذبات کے ساتھ کس حد تک سیاسی بلوغت حاصل کر پائی ہے؟{jcomments on}
127