320

سورج کی روشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہے

فرخندہ شمیم
دور پہاڑوں کی بلندی سے جب کوئی آبشار نیچے گرتی ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کہاں تک جانا ہے۔ اسے دریا کی وسعت بننا ہے یا اونچی نیچی چٹانوں میں تقسیم ہو جانا ہے۔ اسے بہنے کا شوق ہے اور یہی اس کی ایمانداری ہے۔ معروف مصنف شاہد جمیل منہاس کی نیت بھی فقط لکھنا ہے۔ خواہ نعت شریف ہو۔ کالم ہو یا پھر وہ لیکچرز جو وہ کلاس روم میں طلبہ و طالبات کو دیتے ہیں۔۔۔ یہ سب اظہار کی شکلیں ہیں۔ ذہین رسا میں ڈوبی ابھرتی تصویروں کے عکس ہیں اور جب اوج عقیدت کی کوئی لہر شاہد جمیل کی تھری ڈی پر اترتی ہے تو وہ نعت کے یہ اشعار کہتے ہیں۔
میرے نبیؐ کا جمال دیکھو
نہیں ہے سایہ کمال دیکھو
جہاں جہاں سے حضور گزرے
بدل دیئے ہیں خیال دیکھو
ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ۔
برستا نور دیکھا ہے گلی کوچوں میں آنکھوں نے
عجب برسات ہوتی ہے مدینے کی گھٹاؤں میں
ایک اور شعر۔
جو ہے قریب تیرے نزدیک ہے وہ رب کے
حسرت ہے میرے دل کی قربت میں تیری پاؤں
بے لوث چاہنے والے رشتے ہوں یا محسن جو کڑی دھوپ میں سائبان بن گئے۔۔۔ شاہد نے کسی بھی محبت کو فراموش نہیں کیا۔ اپنے کالموں میں کسی کا مذاق نہیں اڑایا، تحریروں میں ان شخصیات کو بھی خراج تحسین پیش کیا جو ابھی بادلوں کی اوٹ میں کہیں پوشیدہ ہیں اور خلائق ابھی ان کے جمال سے غیر متعارف ہے۔ شاعر نے شاہد جیسے افراد کے حوالے سے کیا خوب کہہ دیا ؎
مجھ میں سورج کوئی منور تھا
روشنی بانٹتا رہا میں بھی
شاہد منہاس کے ذوق اشعار اسی انتخاب میں جا بجا ہیں جو وہ اپنے موضوع اور تحریر میں جان ڈالنے کے لیے برتتے ہیں۔ اپنے کالم ”سانحہ پشاور کے معصوم شہداء“ کے آخر میں یہ شعر کوٹ کیا۔
شر پسندوں کو مارنے کے لیے
پھر ابابیلیں بھیج دے مولا
ایک اور کالم بدلتی قدروں کے اثرات میں موضوع سے مطابقت رکھتا ایک برمحل شعر یوں شامل کیا۔
تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
شاہد جمیل کے قلم میں سرکار دو عالم ؐ کے لیے جو عقیدت ہے وہ ان کی نثر میں بھی موجود ہے۔ ان کے کالم اصلاحی ہیں اور اصلاح کے ہر اقدام کو انہوں نے قرآن اور اسوہئ حسنہ سے دلائل اٹھا کر مضبوط کیا ہے۔ دینی موضوعات کے علاوہ بھی انہوں نے سماج اور حیات انسانی سے جڑے ہر موضوع کو فرمان رب اور فرمان رسولؐ سے منسلک کیا ہے اور اپنی تحریر میں

اختلاف رائے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ عنوان ”جس کے سامنے“ کالم کا ایک طبع زاد فقرہ۔
”میں نے اکبر سے کہا آپ صرف نام کے اکبر نہیں بلکہ کام کے بھی اکبر ہیں جس کے سامنے مجھ جیسے ہزاروں ”اصغر“ ہیں“۔
ایسے فقرے افسانے کا ذائقہ لیے محسوس ہوتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابتداء میں کہا تھا شاہد جمیل سلاست رو ہیں۔ معصوم، سادہ اور عوامی تحریر لکھتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ایک مملکت میں قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ، لوک سبھا کے ساتھ ایوان بالا، دارالعوام کے ساتھ دارالامراء اور دیوان عام کے ساتھ دیوان خاص سابقہ اور لاحقہ ہوتے ہیں اسی طرح نثر کے سفر میں نثر عالیہ کے پڑاؤ بھی ضروری ہوتے ہیں۔ شاہد جمیل کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی سادہ نثر میں نثر عالیہ کو ضرور شامل کریں کیونکہ شو کیس میں سجے تمام زیورات میں جڑاؤ زیوارت سے نظر ہٹانا آسان نہیں ہوتا۔
شاہد جمیل کے ایک کالم کا عنوان مجھے خاصا بھایا ہے۔ کیونکہ موجود کالموں میں آبرو ہے۔ کہیں دھرتی ماں کی آبرو۔ کہیں شہید کے خون کی آبرو، کہیں مشرق کے دو پٹوں کی آبرو، کٹیا میں پلتے نادار بچوں کے خوابوں کی آبرو، بھوک سے موقوف جسموں کی آبرو اور ہر وہ آبرو جو عزت کے زمرے میں آتی ہے اور جسے معاشرہ آبرو کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
شاہد جمیل کے کالموں کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے یہ احساس چہار سمت سے گھیرے رہا کہ وہ مختلف کوٹیشنز یا اقوال کو بنیاد کرتے ہوئے موضوع تراشتے ہیں اور اسے سلاست کے ساتھ کمال مہارت سے لکھ جاتے ہیں۔ ایک جگہ کوٹیشن دی۔
”جانور میں عقل اور فرشتے میں خواہش نہیں ہوتی مگر انسان میں دونوں چیزیں ہوتی ہیں“۔ اس قول حقیقی کو بجائے خود موضوع بنا کر شاہد جمیل نے پورا کالم لکھ دیا۔ ایک جگہ قول درج کیا
”زبان کی تیزی اس ماں پر مت آزماؤ جس نے تمہیں بولنا سکھایا“ اور اس قول کو ہر اس تقدس رشتے سے جوڑ دیا جو ماں جیسی معصوم اور پیاری ہوتی ہے۔ خواہ وہ حقیقی ہو یا دھرتی ماں ہو
آخر میں مصنف کے لیے میرا اپنا ایک شعر
میرے قلم کو حمایت ہے نعتؐ کی ورنہ
میرے قلم کو مٹانے کی سازشیں ہیں بہت
فرخندہ شمیم
افسانہ نگار، شاعرہ، ٹی وی جرنلسٹ
سابقہ کنٹرولر نیوز پاکستان ٹیلی ویژن نیوز، اسلام آباد، پاکستان

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں