فری اور اس کی سہیلی پری نہ صرف یونیورسٹی میں چار سال سے اکٹھی پڑھ تھیں بلکہ رہتی بھی ایک ہی محلے میں تھیں اور ان کی دوستی اپنے محلے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں بھی بہت مشہور تھی. دونوں قدرے سخت طبیعت تھیں اور خاص طور پر لڑکوں سے تو انکا رویہ بہت سخت ہوتا تھا۔ کوئی لڑکا ان سے گپ نہ لگاتا اور نہ ہی ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا کیونکہ اگر کوئی لڑکا قریب ہونے کی کوشش کرتا یا ان پر کوئی جملہ کستا تو وہ سیخ پا ہو جاتیں اوراس کو اتنا بے عزت کرتیں کہ وہ منہ چھپاتا پھرتا۔ البتہ اجمل اور ماجد ان کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے ایک بار تو ان لڑکوں نے محبت کا اظہار بھی کر دیا اور اپن آنکھیں جھکا کر شادی کا بھی کہہ دیا یہ الگ بات کے ان کی ایسی عزت افزائی ہوئی کہ اک ماہ تو وہ یونیورسٹی بھی نہ آ? -اس کے بعد تو ماجد اور اجمل دور دور سے ہی اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے اور بے بسی کی حالت میں آئیں بھرتے – فری اور پری کے محلے دار اور یونیورسٹی والے ان کو نفسیاتی مریض سمجھتے اور ان کے خشک اور خزاں زدہ رویے سے نالاں رہتے تھے۔ یہ دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے پھر سوشل میڈیا ایسی خبروں کو بارہ مصالے لگا کر آگے پھیلاتا ہے اسی وجہ سے سوشل میڈیا کے۔ ذریعے ان کی دوستی سوشل میڈیا پر بھی مشہور تھی اور یہ پوسٹیں بھی عجیب طرح کی لگاتی تھیں۔ان کی پوسٹیں لڑکوں کے خلاف ہی ہوتی تھیں ان کا نعرہ ہمیں جینے دو بہت مشہور تھا اسی وجہ سے ان کے فالورز کی تعداد لاکھوں میں تھی مگر ان سے الگ نظریہ رکھنے والے کچھ کلاس فیلوز اور محلے کے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں ان کو ان فالو بھی کر چکے تھے۔ فری اور پری کی جوانی کی تپش پھولوں کو جلا رہی تھی یہ تپش ان تک ہی محدود ہو گئی تھی – یہ دیکھنے میں مٹی کی دو الگ مورتیں لگتیں مگر ان کی روح ایک محسوس ہوتی تھی۔ ان کی دوستی اتنی گہری ہو چکی تھی کہ جدائی کی سوچ بھی موت کے مترادف تھی۔ اور ایک دوسرے کے بغیر ان کا اک پل گزارنا مشکل ہو چکا تھا۔ روشن خیال لوگوں نے سوشل میڈیا کے کئی اہم گروپس میں ان کو شامل بھی کر لیا تھا یہ پہلے سے زیادہ دوسرے ممالک کا لٹریچر پڑھنے لگی تھیں۔ ان کی سرگرمیاں اور پوسٹیں دیکھ کر کچھ تنظیموں نے ان کی مالی معاونت بھی خوب کی۔ ان دونوں کی سرگرمیوں کی وجہ سیاور خاص کر محلے کے رہائشیوں کی باتیں سن سن کر ان کے گھر والوں نے ان کے باہر جانے پر پابندی لگا دی – ان کے رشتے آتے تو صاف انکار کر دیتیں -یہ کہہ کر انکار کر دیتیں کہ ابھی پڑھ رہی ہیں پھر ان کو شادی کا شوق بھی نہیں ہے ان کے روئیے اور گفتگو سن کر اب تو کوئی رشتہ کی بات بھی نہ کرتا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے میڈیا پر شور مچا دیا کہ فری اور پری کو گھر والوں نے قید کر دیا ہے یہ ظلم ہے بڑے شہروں میں احتجاج شروع ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر ایک ہی بحث چل رہی تھی فری اور پری ہر محفل کا موضوع تھیں۔پولیس نے سوشل میڈیا پر ان کے حق میں پوسٹیں اور احتجاجی ریلیوں کی وجہ سے ان دونوں کے گھر والوں کو راضی کر لیا اور اس طرح ان کو پھر سے یونیورسٹی جانے کی اجازت مل گئی۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ان دونوں کو وی آئی پی رہائش دلوا دی کہ کہیں ان کے گھر والے پھر ان پر پابندیاں نہ لگوا دیں۔ ان کے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل پر خوب چرچے ہو ئے آخر انھوں نے میڈیا پر پریس کانفرنس کی جس میں ان دونوں نے یہ جملہ بول کر سب کو ورطہ حیرت مئں ڈال دیا کہ یہ آپس میں شادی کر رہی ہیں
سوشل میڈیا پر کچھ مذہبی لوگوں اور علما نے خوب نفرت کا اظہار کیا جب کہ سول سوسائٹی اور روشن خیال لوگوں نے ان کی شادی والے اقدام کو خوب سراہا سول سوسائٹی اور روشن خیال طبقے نے ابن کے حق میں دن رات ایک کر دیا غیر مذہبی ممالک کی مداخلت بھی بڑھ گئی۔ لوگ کہتے اسلامی ملک ہے یہاں لڑکی سے لڑکی اور لڑکے سے لڑکا کیسے شادی کر سکتا ہے یہ تو گناہ ہے۔ ایسا کرنے کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا‘ روشن خیال لوگ کا ٹھکانا جہنم ہے۔ وہ کہتیں کہ ہم انسان ہیں، ہماری اپنی زندگی ہے, جیسے مرضی گزاریں ’ہم آزاد ہیں آزاد رہنا چاہتی ہیں‘زندگی ایک بار ملتی ہے ہم کسی کے پابند نہیں ہیں۔دوسری طرف علما نے ان پرفتوی لگا دیے ان کو سنسار کرنے کے لیے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا۔ احتجاج شروع ہو گئے ایک غیر مذہبی ملک نے ان کو ویزہ جاری کر دہا اور سیکیورٹی بھی دینے کا یقین دلوایا۔ ان کے گھر والوں نے ان کی خوب منتیں کیں مگر وہ نہ مانیں۔ آخر ان کے گھر والوں نے ان سے تعلق توڑ دیے اور وہ باہر چلی گئیں۔ باہر جا کر انھوں نے بڑی دھوم دھام سے شادی کر لی روشن خیال لوگوں نے خوب جشن منایامٹھائیاں تقسیم کیں دوسری طرف مذہبی لوگ بے بس ہو گئے۔ ان کی رخصتی بڑی شاندار ہوئی پورے میڈیا پر ان کا ٹرینڈ بن گیا۔ بہت شاندار سیج بنائی گئی، کمرے کو تازہ پھولوں سے سجایا گیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر بہت خوشی کا اظہار کیا کہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہو گئیں ہیں۔ رات کے دس بج گئے انھوں نے بہت ڈانس کی۔ سوشل میڈیا پر ان کو کافی پذیرائی ملی۔
دونوں سیج میں ہنستے ہنستے بیٹھ گئیں۔ چند دن بعد ان دونوں کے چہروں پر مایوسی کے بادل چھانے لگے فری نے پری سے کہا ہم لڑکوں سے نفرت کرتی تھیں حالانکہ ماجد اور اجمل ہم کو اپنا ہم ہم سفر بنانے کی خواہش کا اظہار بھی کر چکے تھے۔ کاش وہ دونوں اس وقت ساتھ ہوتے تو زندگی مکمل ہو جاتی۔
122