122

سب انسپکٹر کی پولیس افسران کی کرپشن کیخلاف آواز

سنٹرل سپیریئر سروس کا امتحان جسے عام طور پر سی ایس ایس کے امتحان کے نام سے جانا جاتا ہے ہر سال فروری میں مختلف سرکاری محکموں کی آسامیوں‘ سول سروسز‘خالی اسامیوں اور امیدواروں کی بھرتی کی غرض سے منعقد کیا جاتا ہے، یہی سی ایس پی آفیسر مختلف محکموں کی بھاگ دوڑ سنبھالتے ہیں ہر محکمے میں دو قسم کے جوان ہوتے ہیں ایک آفیسر اور دوسرے جوان، اگر کرپشن کی بات کی جائے تو کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں جہاں کرپشن نہ ہو ہر محکمے میں یہی حال ہے، اس معاملے میں محکمہ پولیس بہت بدنام ہے اس کو ٹھیک کرنے کے دعوے تو بہت کیے گئے مگر عملی کام نہ ہونے کے برابر رہا، پولیس کے محکمے میں سی ایس پی آفیسر اے ایس پی رینک سے شروع ہوتے ہیں پھر آگے ترقی کر کے بڑے عہدوں پر جاتے ہیں گزشتہ روز محکمہ پولیس کے ایک دوست سب انسپکٹر محمد نصیر کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جو اپنے افسران سے شکایت کر رہے تھے، ان کے مطابق محکمہ پولیس میں کبھی کوئی سی ایس پی افسران کرپشن پر ڈسمس فرام سروس ہوا؟ سب فرشتے بھرتی ہوتے ہیں؟ سب سے زیادہ سی ایس پی آفیسر کرپشن کرتے ہیں، میس انچارج، اکاونٹ برانچ، ایم ٹی سیکشن، وردی گودام، کینٹین، ھر مدات سے مرمتی فنڈ سے متفرق سٹور، کوت،ہر شعبہ سے کرپشن کرتے ہیں، جب کوئی رینکر کانسٹیبل سے ڈی ایس پی صاحبان کی شکایات موصول ہو جائے تو اسکو سزا دیکر پریس ریلیز جاری کرتے ہیں، میں نے ہر دفتر فیلڈ اور موجودہ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کے ساتھ بھی کام کیاہے، میری کوئی ایک پراپرٹی ثابت کریں، موجودہ راولپنڈی سی پی او صاحب بتائیں کتنے اے ایس پی اور ایس پی صاحبان کے خلاف کارروائی کروائی کی ہے؟ آپ نے کتنے ایس ایچ او صاحبان میرٹ پر تعینات کیے ہیں؟ ایس پی جوئیہ صاحب راولپنڈی بڑے ایماندار آفیسر ہیں وہ تھانہ کے ڈی ایف سی ملازمین سے گھر کے لیے سبزی فروٹ منگواتے ہیں‘اس سے پہلے کوئی افسران سندھ سے آئے تھے، جو ملازمین لائے تھے جو منشیات کا کام کرتے تھے ڈی پی او اٹک تھے، اب بھی ان کے اہلکار گرفتار بھی ہوئے تھے ابھی اٹک تعینات ہیں، سی پی او صاحب ایماندارہیں اور ان کی ناک کے نیچے سب کچھ ہورہا اور ان سی ایس پی افسران کی وجہ سے پولیس کرپشن میں نمبر ون پر آئی ہے۔ سی ایس پی افسران کی ٹریننگ کے بعد ان کو گاڑی، گن مین، ڈرائیور، فیول، ٹیلیفون،میڈیکل،رہائش ہر چیز فری، پھر بھی کرپشن میں لت پت رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں تفتیش کرنے اور کام کرنے والے کانسٹیبل سے انسپکٹر تک کوئی سہولت نہیں، کوئی انویسٹی گیشن فنڈ نہیں، میڈیکل نہیں 30 دن روٹی کی رقم 1035 روپے، واشنگ الاونس 100روپے مہینہ اور جو رقم انویسٹی گیشن کی مد میں برآمدہوتی ہے وہ معرفت اکاونٹ برانچ DPO /CPO کے جیب میں جاتی ہے، جب تک سی ایس پی افسران کا احتساب نہیں ہوتا ان کی کرپشن کے بارے لکھتا رہوں گا، 30 سال میں جس طرح ان لوگوں نے کرپشن کی، ایک ایک لفظ درست طور پر تحریر کروں گا، راؤ اقبال سے لیکر ندیم بخاری تک، CPO صاحب، جو SHO آپ نے لگائے ہیں، واہ کینٹ سے لیکر تمام ضلع میں چند ایس ایچ اوز کو چھوڑ کر باقی سب کا مجھے علم ہے، اگر آپ ایماندار ہیں تو واہ کینٹ کے ایس ایچ او کے پاس کریش مشین، کوہستان کالونی میں گھر پلاٹ کا کوئی حساب کتاب نہیں؟موجودہ روات سب انسپکٹر ایس ایچ او صاحب کے بارے میں سروس رول میں کیا لکھا ہے؟ آپ کے پاس کاپی نہیں تو میرے پاس موجودہے، مہربانی کرکے محکمہ کی توہین نہ کریں،سب سی ایس پی افسران کرپٹ ہیں۔ میری ایک پراپرٹی ثابت کریں، میں نے 30 سال پورے پاکستان میں انویسٹی گیشن پول کی نوکری کی ہے، انٹرپول کے ذریعے قطر میں بھی کی ہے، میں نے کہا تھا جس دن مجھ الزام بھی آیا میں نوکری چھوڑ دوں گا۔ ایس آئی نصیر الرحمن کے مطابق سب سے زیادہ کرپشن سی ایس پی لیول کے آفسران کرتے ہیں مگر آج تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اگر ہم ضلع راولپنڈی کی حد تک بات کریں تو ان کی بات ٹھیک ہے آج تک کبھی بھی کسی بڑے رینک کے آفسر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی، قربانی کا بکرا ہمیشہ چھوٹے رینک کا آفیسر ہی بنتا ہے بڑے آفیسر خود صاف بچ جاتے ہیں جب تک ہر محکمے میں برابر کاروائی نہیں ہوگی تب تک کرپشن کا خاتمہ مکمن نہیں آج ایک نصیر نے آواز اٹھائی کل اور بھی ہوں گے اس لیے محکمہ کے اعلی افسران کو چاہیے کہ اپنے محکمے سے انصاف کریں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں