
وطن عزیز میں ایک ایسا سسٹم بن چکا ہے کہ عوام کو ہر چھوٹے بڑے کام مثلاً سڑک گلی نالی پکی کرانے سے لیکر ہسپتال, سکول, کالج اور یونیورسٹی جیسے منصوبوں کے لئے ایم پی ایز, ایم این ایز اور وزیروں مشیروں کے دفتروں اور ڈیروں پر لاؤ لشکر کے ساتھ حاضری دینا پڑتی ہے کہ کب وہ اپنی پارٹی پالیسیوں سے بالاتر ہو کر عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی منصوبے کے لئے گرانٹ جاری کریں گے, دوسری جانب دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور وہ چھوٹی سطح سے لیکر بڑی سطح تک ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہیں بلکہ قومی اداروں کے خلاف بیان بازی سے بھی گریز نہیں کرتے, چوک چوراہوں سے لیکر ایوان بالا تک کبھی یہ کرپٹ وہ کرپٹ, کبھی یہ چور وہ چور کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں اور بیچارے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے, اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب جس کے متعلق یہاں سے مختلف ادوار میں منتخب ہونے والے کسی بھی عوامی نمائندے نے نوجوان نسل کے مستقبل بارے سنجیدگی سے نہیں سوچا وہ یہ کہ ساگری اور گردو نواح کے دیہات کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ہمارے اپنے علاقے میں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ڈگری کالجز ہونا چاہئیں کیونکہ یہاں کے اکثر طلبہ و طالبات انٹر کے بعد اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے اس سٹیج پر آ کر ان کے اور ان کے والدین کے تمام سپنے چکنا چور ہو حاتے ییں یا ان کی غریبی کا عنصر آڑے آ جاتا ہے کیونکہ چند لوگ تو اپنے بچوں کو راولپنڈی اسلام آباد پڑھانے کے اخراجات برداشت کر لیتے ہیں بیچارا غریب اور دیہاڑی دار طبقہ گاڑیوں کے کرائے اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کر سکتا اور ان کے بچے بچیاں گھر بیٹھنے پر مجبور ہو حاتے ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لئے تعلیمی سلسلہ ترک کرنا پڑ جاتا ہے, راقم نے گذشتہ شمارے میں گورنمنٹ بوائز ہائیر سکینڈری سکول کے متعلق لکھا تھا کہ اس میں طلبہ کی تعداد, اساتذہ کی تعداد, اساتذہ کی خالی پوسٹیں اور کلاسز کے کمرے کتنے احاطے پر مشتمل ہیں, یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت سکول کی اپنی ملکیتی اراضی تقریباً 40 کنال کے لگ بھگ ہے اور پانچ چھ کنال پر بلڈنگ بنی ہوئی ہے باقی تمام زمین خالی پڑی ہوئی ہے اگر کوئی عوامی نمائندہ نیک نیتی سے طلبہ کے لئے ڈگری کالج بنانے کے لئے منظوری لینے کی کوشش کرے تو اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ اصل مسئلہ جگہ کا ہونا ہوتا ہے, اسی طرح ڈیڑھ دو فرلانگ کے فاصلے پر گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول ساگری کی خوبصورت بلڈنگ 24 کمروں پر مشتمل ہے جبکہ سائنس لیب, آئی ٹی لیب اور لائبریری کے کمرے ان کے علاوہ ہیں, اس وقت ہائی سکول میں طالبات کی تعداد 998 کے لگ بھگ ہے جبکہ ہائیر کلاسز میں 499 طالبات پڑھ رہی ہیں جنہیں پرنسپل کے علاوہ 40 ٹیچرز پڑھا رہی ہیں اور ٹیچر کی 5 سیٹیں خالی ہیں جن میں ایس ایس کی 4 اور ای ایس ٹی کی ایک شامل ہے جبکہ 2 کلرکوں کی پوسٹیں بھی خالی ہیں, نائب قاصدوں کی تعداد کم ہے ان کے ساتھ ساتھ سویپروں کی بھی تعداد بڑھانی چاہئے کیونکہ اس وقت کالج میں صرف ایک سویپر کام کر رہا ہے, سکول کی اپنی ملکیتی اراضی تقریباً 34 کنال پر مشتمل ہے اور زیادہ تر زمین خالی پڑی ہوئی ہے, اب بھی دور و نزدیک کے علاقوں محلہ راجگان‘محلہ اعوان‘ڈہوک فاطمہ‘ڈہوک میرا‘ ڈھکالہ‘توپ مانکیالہ‘مانگا,‘ڈہوک شوکت‘جھمٹ مغلاں‘کلیال‘موہڑہ نبی شاہ‘ڈہوک راجگان‘ڈھکی‘بشنڈوٹ‘ موہڑہ نجار‘ڈہوک کالیاں‘ڈہوک قاضیاں‘بٹر‘موہڑہ میرا‘کلاڑی‘شاہ باغ‘گوہڑہ‘بگیال‘گکھڑ سنال,رمیال‘مجید آباد‘نئی آباد‘سردار مارکیٹ‘موہڑہ بھٹاں‘مانکیالہ اسٹیشن‘موضع طوطا و دیگر دیہات کے طلبہ و طالبات انہی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور علم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک و قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر ریے ہیں آپ کے ذہن میں یہ بات آئی ہو گی کہ ایک وقت میں ایک ہی علاقے کے لئے 2 ڈگری کالج کی منظوری کیسے ممکن ہو سکتی ہے چلو 2 نہیں تو ترجیح بنیادوں پر طالبات کے لئے ڈگری کالج کا ہونا ازبس ضروری ہے اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ ہمارے ساگری سرکل کے عوام کو فٹبال بنا دیا گیا ہے کبھی ہمیں مری کی طرف اور کبھی گوجرخان کی طرف پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے مسائل جوں کے توں چلے آ رہے ہیں۔