علی عمران کاظمی کے خمیر میں پوٹھوہار‘ اس کی زبان‘ رہتل اور تہذیب لہو کی طرح شامل ہے۔ وہ معاش کی غرض سے رہتے تو بیرونِ ملک ہیں مگر اپنے ملک اور پوٹھوہار کے ہر مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ان کے احساس اور مشاہدے کی شاخ بھی سرسبز ہے۔ ان کا اپنے ملک اور پوٹھوہار سے گہرا روحانی و سماجی تعلق ہونے کی وجہ سے وہ ہر ایک کرب کی شدت اور دکھ کی آواز کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں
بلکہ اپنی شاعری میں اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیرونِ ملک نہیں بلکہ اپنے ملک میں رہ رہے ہیں۔ان کا تعلق جس خاندان سے ہے، اس کی قربانیوں، سخاوتوں اور بے لوث محبتوں کا اعتراف قیامت تک ساری دنیا کے صاحبانِ شعور کرتے رہیں گے۔ ان کی کتاب”ساڑ“میں درجِ ذیل شعر ان کے پختہ یقین اور حق کا علم بلند کرنے کی غمازی کرتا دکھائی دیتا ہے
خدا رکھسی رحمت نے سائے وچ اس کی
جو آل محمدؐ نے نزدیک ہوسی
نعت کا یہ شعر بہت خوبصورت اظہارِ محبت ہے
اور ہم سب کو دعوتِ فکر بھی دے رہا ہے:
کیہ لبھسی اس چغڑے وچوں
نور یا انسان محمد
ان کی پوٹھوہاری غزلیات کی کتاب”ساڑ“ کا جب مطالعہ کریں تو ان کا شعری اسلوب‘ مشاہدہ اور زبان کی مٹھاس اپنے دائرے میں قید کر لیتی ہے۔ اہلِ ذوق اور معیاری ادب کے قاری ایسی قید کو خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔ جس کو
اپنی زبان، اس پہ مستزاد معیاری
ادب پڑھنے کو ملے تو وہ یہ قید بار بار قبول کرے گا۔ان کے یہ خوبصورت اشعار دیکھیں جو ان کے انفرادی اسلوب کی پہچان ہیں:
اج کل اچھی خاصی ہوسی
مھاڑے نال اداسی یوسی
جا او ہجرا ککھ نانہہ ریہی
گوڑھے ساک تروڑے نی
کیہڑی گل ناغصہ ای
کیہڑے بدلے موڑے نی کیہ دساں تقدیر کیہ ہونڑیں
نہ پوچھ مھاڑے ویر کیہ ہونڑیں
توں کیہ جانڑیں چہھلیا لوکا
درداں نی جاگیر کیہ ہونڑیں
اس طرح کے خالصتا”غزل کے اشعار پڑھ کر یہ کہنا عین فرض بن جاتا ہے کہ پوٹھوہاری زبان میں بھی معیاری غزل کہی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم خیال ہوتا ہے، چاہے زبان کوئی بھی ہو۔یہ شعر ہمارے اندر میں پھیلے ہوئے اندھیرے‘جہالت کی چھائی ہوئی گھٹا‘ پاؤں سے باندھی ہوئی زنجیریں‘آنکھوں میں اگتے جنگل‘خیالوں میں بستے صحرا اور معاشرے میں دوغلے رویوں کو عیاں کر رہا ہے:
سچیاں لوکاں نے منہ بند
چہوٹھے کرنے پئے تصدیق
یہ شعر سن اور پڑھ کر واہ واہ کہنے کا دل کرتا ہے کیونکہ ہر کوئی دل کے قریب نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر بات ہر کسی کو بتائی جا سکتی ہے:
دل نی گل نہ دسی سکنڑاں
توں کوئی مھاڑا یار تے نینہ
یہ اشعار حقیقت میں آئینہ دکھا رہے ہیں اور یہی اشعار ضرب المثل بن جاتے ہیں:
گلاں نال تے پھٹ نینہ پہھرنے
لہو نینہ رکنڑاں لیراں کولوں
دنیا کولوں ڈرنے آلے
کسرے قول قرار نبھاسنڑ
تہاڑے ار میں لارے لپے لائی تے
سنگیاں کولوں کم کڈھائی سکنڑاں ساں
عمران کاظمی ان چند پوٹھوہاری شعرا میں سے ہیں جو مختلف بحور میں لکھتے ہیں۔ معیاری اور انفرادی شاعری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شعر کیا ہے، اچھا شعر کیسے بنتا ہے، کلاسیک‘روایتی اور جدید شاعری کیا ہے، اس سے بخوبی واقف ہیں۔
ان کی شاعری میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ علامتوں، استعاروں، تشبیہات اور تلمیحات کا استعمال بڑے احسن انداز سے کیا گیا ہے جو بڑے شاعر ہونے کی نشانی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
اکھیاں کی سمجھایا کربہوں نانہہ بولنڑ
کئی واری کج درد چھپانڑیں پئی جانڑیں
جے او کہلیوں رویا ہوسی
کج نا کج تے ہویا ہوسی
جیہڑا شعر عمران سناسی
درداں نال پرویا ہوسی
مضمون کے ابتدا میں ذکر کر چکا ہوں کہ ان کو اپنے ملک‘ اپنے پوٹھوہار‘ اپنے گاؤں اور پوٹھوہاری زبان سے بہت گہرا عشق ہے۔ وہ اپنے شہر بیول کی محبت میں یوں اظہارِ محبت کرتے ہیں:
مھاڑا دل بس اے ہی چاہنڑاں
ساری دنیا بیول ہووے
’ساڑ‘کتاب میں حمد، نعت، مناقب، غزلیں، نظمیں اور ٹہھائی مصرعی نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ ان کی پوٹھوہاری کی پہلی کتاب ہے لیکن اب تک پوٹھوہاری شاعری کی جو اچھی کتابیں شائع ہیں ان میں سے ایک ہے۔