بیٹیاں کسی بھی گھر کی رونق اور اللہ تعالی کی رحمت ہوتی ہیں ۔ اسلام سے قبل بیٹیوں کو پیدائش کے وقت ہی زندہ درگور کر دیا جاتا اور ان کی پیدائش پر سوگ منایا جاتا تھا ۔ اسلام نے عورت کو مقام دیا اس کے حقوق مقرر کیے ، اسے وراثت میں حصہ دار بنایا اورعورت کی عزت کا تعین کیا۔ لیکن آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی عورت کو وہ مقام نہ مل سکا جس کے اسلام نے احکامات صادر فرمائے ہیں ، آج ہمارے اسلامی جمہوریہ میں کہی عورت وراثت میں حصہ حاصل کرنے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ، کہی غیرت کے نام پرسولی چڑھ رہی ہے اور کہی مرد اپنی مردانگی کو ثابت کرنے کے لئے عورت کو اپنے خود ساختہ قوانین کی نظر کر رہا ہے ۔
پچھلے ماہ ابیٹ آباد میں عمنبرین نامی لڑکی کو جرگے کے فیصلے سے اپنی سہیلی کے پسند کی شادی میں معاونت کرنے کے جرم پر زندہ جلا کر انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا اور اہل دل رکھنے والوں کو پسج دیا۔چند دن اجتجاج کیا گیا نجی تنظیموں اور حکومتی باشندوں نے خوب فوٹوسیشن کرایا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان مجرموں کو اتنی سخت سزا دی جائے گئی کہ آئندہ ملک عزیز میں کو ئی شخص ایسا کرنے بلکہ سوچنے کی جرات بھی نہیں کرے گا،اور مجرموں کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ ابھی ارضِ وطن کی فضا اسی واقعہ میں ہی سوگوار تھی کہ مری کے نواحی علاقے میں ایک نجی سکول کی انیس سالہ استانی کو صرف اس سکول کے مالک کے شادی شدہ اور ایک بچے کے باپ بیٹے سے شادی کرنے سے انکار پربے دردی سے قتل کر کے جلا دیا گیاجوپمیز ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملی۔ جس کی تدفین کے دن ملک کے بیشتر حصوں میں تیز آندھی نے درودیو ار ہلا دیے جو شاید ربِ کریم کی ناراضگی کو ظاہر کر رہا تھا یا پھر ظالموں کو یہ واضع پیغام تھا کہ انسانیت پر ظلم کرنے والے کبھی بھی اللہ کی پکڑ سے بچ نہ پائیں گئے۔
بات یہی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ صوبائی درالحکومت میں بھی ایک اس سے بڑھ کر واقعہ پیش آیا جس میں خونی رشتوں نے زینت بی بی کو پسند کی شادی کرنے پر جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سال میں ملک میں تقریباً 1100غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوئے جو کہ لمحہِ فکریہ ہیں جن کی شاید سب سے بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے اسلام کے بتائے ہو ئے رستے پر نہ چلنے کی سزا ہے،یا یوں کہا جا سکتا ہے موجودہ دور میں صرف اپنے مقصد تک کے اسلام کے اصولوں کو مد نطر کھا جاتا ہے،آج کل کی ماڈرن جنریشن عشق ومحبت کی داستانیں داغ کر والدین کو اس وقت بتانے کی زحمت کرتے ہیں جب وہ تمام معملات خود طے کر چکے ہوتے ہیں،اگر اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے تو اسلام پردے کا حکم بھی دیتا ہے کہ نامحرم کو نہ دیکھا جائے اور نا صرف عورت کو پردے کا حکم دیا بلکہ مرد کو بھی اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اور بعض اوقات والدین بھی بچوں کی جائز خواہشات کو اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورانہیں کرتے جس وجہ سے ایسے حادثات رونماء ہوتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا ایک اور اہم پہلو وراثت میں عورت کو حصہ دار بنانا ہے جس کی شرح بھی واضع کر دی ہے لیکن آج کے دور میں زمانہ جہالیت کی طرح عورت کو جائیداد سے یکسر فارغ کر دیا جاتا ہے، بعض علاقوں میں یا تو عورت کی شادی ہی نہیں کی جاتی یا پھر نکاح سے پہلی اسے جائیداد میں اپنے حآہ سے دستبردار ہوناپڑتا ہے،اور کچھ علاقوں میں تو عورت کا نکاح ایک غیر ا سلامی رسم کے ذریعے قرآن سے کر دیا جاتا ہے تا کہ جائیداد میں سے کوئی حصہ مانگنے والا نہ ہو،تو ایسی صورتِ حال میں عورت کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے کبھی عدالت کا دروازہ کٹھکٹھانا پڑتا ہے تو کبھی دھرنے کی صورت میں اپنے ساتھ ہونے والی انصافی کو سامنے لانے اور انصاف طلب کرنے کے لئے سعی کی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں بظاہر تو ہم مسلمان اور ایک نبیﷺکا کلمہ پڑھنے والے ہیں لیکن اسلامی اصولوں سے یکسر بے خبر ہیں صرف فرق اتنا ہے کہ زمانہِ جاہلیت میں عورت کو پیدا ہوتے وقت ہی زندہ دفن کردیا جاتاتھا اور دورِ جدید میں جوان کر کے۔۔۔{jcomments on}
140