208

زلزلہ

راجہ شاہ میر اختر
سورۃ بقرہ ۱۰۵) ترجمہ : جب ہم کائنات کے بعض مناظر مٹا دیتے ہیں تو ان سے بہتر یا ویسے ہی اور مناظر پیدا کر دیتے ہیں۔پہاڑ آگ اگل کر بطنِ زمین کے خزائن

ہمارے استعمال کے لیئے باہر پھینکتے ہیں۔پہاڑوں کی قدروقیمت انھی معاون کیوجہ سے ہے جسطرح انسان علم کے بغیر مردہ خیال کیا جاتا ہے اسی طرح پہاڑ معاون کے بغیر قلب بے جان سمجھے جاتے ہیں۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے حالیہ زلزلہ سے ایک جزیرہ نمودار ہوا اور اس سے قبل 2005کے زلزلہ سے جھیل کا بننا اور پہاڑوں کا اپنی جگہ کے تبدیلی ہونے پر علم کی روشنی سے تحقیقی عمل کی ضرورت ہے۔ یہ زلزلے انسانوں کو قادرِ مطلق کی نعمتوں کے شکر گزار بھی بناتے ہیں!
خالقِ کائنات کا ہر عمل ایک عظیم الشان حکمت کا حامل ہے۔ یہ دنیا کیا ہے؟ ایک پر عظمت کیمیا خانہ، پہاڑ بن اور بگڑ رہے ہیں، ہوائیں چل رہی ہیں، صحرا تپ رہے ہیں اور کائنات کا وہ کیمیا گر اس معمل میں بیٹھ کر نئے نئے تجربے کر رہا ہے۔ رنگا رنگ پھول، میوے اور پودے بنا رہا ہے۔ اس کا رگاہِ جلیل کے ہیبت انگیز تنوع پر غور کیجئے اور انصاف فرمائیے کہ اس صناع بے چوں کی حیرت افگن تخلیق و تکوین کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟
اے ہمارے رب! تو ہی بتا کہ ہم اس حیرت و ہیبت کا کیا علاج کریں جو تیرے اس مہیب کارخانے پر ایک چھچھلپتی سی نگاہ ڈالنے کے بعد ہمارے قلوب پر طاری ہو جاتی ہے۔ اس خشیت کو بے شمار سجدے، لا تعداد نمازیں اور ان گنت تسبیحین کم نہیں کر سکتیں۔ یہ ایک اضطراب ہے، روح افروز بے چینی ہے، تیری ایک نیم عریاں سی جھلک مسکراتے ہوئے پھول میں دیکھی ، تیری عظمت بلند پہاڑوں سے ترانے گاتی ہوئی اتر رہی ہے ۔ میرے حسین آقا! اب سمجھا کہ موسیٰ ء کیوں بے ہوش ہوئے تھے۔بے بصیرت انسان کوہساروں کو دیکھ کر تیرے جلال و شکوہ کے تصور سے تھرا اٹھتا ہے تو موسیٰ ء جیسا رازدانِ قدسِ طورِ سینا کے دامن میں تیری لرزہ فگن سطوت کو دیکھ کر کیوں مدہوش نہ ہوتا۔
سمندر میں پہاڑ دو طرح کے ہوتے ہیں:
اول زلزلوں کیوجہ سے بطنِ زمین کا مواد باہر آ جاتا ہے اور سمندر کی گہرائی میں پہاڑ کی طرح جمع ہو جاتا ہے۔ دوم ندیاں،نالے اور دریا پتھروں کی بہت بڑی مقدار بہا کر سمندر میں لے آتے ہیں اور خود سمندر بھی ساحلی چٹانوں کو لطمہائے امواج سے توڑتا رہتا ہے۔ پانی میں چند معاون محلولہ موجود ہوتی ہیں مثلاً چونا،لوہا،سلیکا وغیرہ جو گوند بن کر ان پتھروں کو جوڑ دیتی ہیں اور اس طرح سمندر میں کئی سو میل لمبی اور کئی ہزار فٹ اونچی چٹانیں تیار ہو جاتی ہیں ان حجری تہوں کو جمانے کے لیئے پانی کا دباؤ بہت موثر ثابت ہوتا ہے اور دریاؤں کی لائی ہوئی چکنی مٹی بھی گارے کا کام دیتی ہے۔ یہ عمل ان گنت صدیوں تک جاری رہتا ہے اور جب وہ حکیمِ علی الاطلاق دیکھتا ہے کہ خشکی کے پہاڑ کے اکثراخراجِ معاون کیوجہ سے تہی دست اور بے نوا و بیکار ہو چکے ہیں تو اس کی رحمت میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، وہ زمین کو یوں جھنجھوڑتا ہے کہ بلندیاں پست اور پستیاں بلند ہو جاتی ہیں پانی ادھر ادھربہ نکلتا ہے اور نیچے سے نوجوان پہاڑ دفائن و خزائن کی دنیا ہمراہ لئے باہر آجاتے ہیں۔

زلزلے کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو بطنِ زمین سے اٹھتے ہیں اور دوسرے وہ جو جنکا مرکز انسانی دل و دماغ ہوتا ہے۔ زمینی زلزلے زمینی دفائن کو باہر پھینک دیتے ہیں اور انسانی زلزلے انسانی جوہر کو عریاں کر دیتے ہیں جس طرح دہقان زمین کی زندہ قوتوں کو بے نقاب کر دیتا ہے اسی طرح محنت، (انسانی زلزلہ) انسان کی قلبی و دماغی طاقتوں کو بروئے کارلے آتی ہے ۔ خدائی تعزیرات میں سب سے بڑا جرم کاہلی ہے اور آج اسی کاہلی کی پاداش میں مسلم پٹ رہا ہے۔ دنیا کی تمام اخلاقیوں اور ذلتوں کی وجہ جہالت ہے اور جہالت کیوجہ سستی۔
جب تم گذشتہ کئی سو برسوں سے دیکھ رہے ہو کہ اللہ جلِ شانہ‘ کاہلوں کی دعائیں نہیں سنتا تو پھر اس فریب کاری اور فریب خوردگی سے کیوں باز نہیں آتے؟ کیوں دل و دماغ سمع و بصرہ اور دست و پا کو استعمال نہیں کرتے اور کیوں کاہلوں کے عبرت انگیز انجام اور با عمل اقوام کی کامرانیوں پر درس طلب نگاہ نہیں ڈالتے؟ وہی اقوام طاقت ور کہلاتی ہیں جو اپنی محنت کے زلزلے سے دل و دماغ کی مخفی طاقتوں کو بروئے کار لے آتی ہیں اور پھر دفائنِ ارضی(جو زلزلوں سے باہر آتے ہیں) سے مستفید ہو کر اللہ سے انعامِ سلطنت پاتی ہیں۔
پاکستان کی پاک سر زمین پر اللہ تعالیٰ نے ہر وہ نعمت عطا فرمائی ہوئی ہے جو یہاں کے بسنے والوں کو ضرورت ہیں خوبصورت پہاڑوں کا سلسلہ مشاہداتی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے جو ہمارے دل و دماغوں میں زلزلہ کی سی کیفیت پیدا کرے تاکہ ہم بھی سستی اور کاہلی جیسی موذی مرض سے بحیثیت قوم باہر نکل سکیں۔
ڈرو !اس وقت سے جب عذاب الہی ہمیں غفلت کی نیند میں دبوچنے آ جائے۔ صبح سویرے کا جاگنا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی سے آغازِ دن کی شروعات اپنی عادت میں ڈھالیں نہ کہ سست اور کاہل لوگوں کی طرح بستر پر ہی کروٹیں بدلتے صبح کے گیارہ بج جائیں۔ جس سے ایک طرف صحت کی خرابی کا عمل اور دوسری طرف مالکِ کائنات کے فرائض سے غفلت برتنے پر مجرمانہ فعل ۔(جاری ہے)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں