ثاقب شبیر شانی/ریسکیو 1122 کے تیس سالہ جوان ثاقب فراز جنجوعہ بطور شفٹ انچارج اپنی ٹیم کے ہمراہ ریسکیو بلڈنگ کلرسیداں کے کنٹرول روم میں ایمرجنسی کال کی صورت میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے ڈیوٹی پر معمور تھے ریسکیو ہیڈ کوراٹر راولپنڈی سے کال موصول ہوئی جس میں انہیں ایک ایمرجنسی پر فوری رسپانس کا حکم ملا‘ انسیڈنٹ کمانڈنٹ حارث فاروق کی سربراہی میں دس رکنی ریسکیو ٹیم آن کی آن میں جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوگئی واقعہ تحصیل گوجرخان کے علاقے بیول کی نئی آبادی میں پیش آیا تھا مگر جائے وقوعہ سے قریب ہونے کے باعث کلر کی ریسکیو ٹیم کو رسپانس کاٹاسک دیا گیاٹیم جب جائے وقوعہ پر پہنچی تو گھر میں میں کہرام برپا تھا اس گھر کے مکینوں کی آنکھیں اپنے جگر گوشے اڑھائی سالہ محمد عیٰسی کو دیکھنے کو ترس رہی تھیں وہ اسے بانہوں میں بھرنا چاہتے تھے اس کے بالوں کو سہلانا چاہتے تھے اس کے گالوں کو چومنا چاھتے تھے مگر ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ انکا کم سن لخت جگر کھیلتے کھیلتے بورنگ(چھوٹے سے قطر کا کنواں) میں گر گیا تھا اور قریبا سو فٹ سے زائد زمین میں موجود بورنگ کے سوراخ کے اندر اٹکا ہوا تھا۔ ریسکیو ٹیم نے حالات کا جائزہ لیا اور ہنگامی آپریشن کے لئے اپنی حکمت عملی بنائی ننھے عیٰسی کے والد نے ریسکیو آفیسر سے التجاء کی خدارا میرے بیٹے کو کسی طرح بچا لیں آفیسر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی انشاءاللہ ہم آپ کے بیٹے کو زندہ سلامت باہر نکال لیں گے ہم نے کیمرہ کے ذریعے دیکھا ہے آپ کا بیٹا صحیح سلامت ہے۔ آفیسر جانتا تھا یہ بات کہنا آسان ہے اور کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے زندگی کے ہاتھ سے پھسل کر موت کی آغوش میں سرکتے محمد عیٰسی کو موت کے منہ سے کھینچ کر واپس لانا ہونا گااور یہ پرودگار عالم کی منشاءو مدد سے ہی ممکن ہے‘ریسکیو ٹیم نے سٹیٹک روب(رسی) کے سرے پر لوہے کی سلاخ کو کنڈی کی صورت موڑ کا باندھا اور بورنگ میں اتار دیا قسمت نے یاوری کی اور کنڈی بچے کی قمیض کے ساتھ اٹک گئی بچے کی بازو بھی کنڈی کے حلقے میں آگئی جس سے مضبوط گرفت بن گئی۔ اسی اثناءمیں راولپنڈی سے روانہ کی جانےوالی اربن سرچ اینڈ رسپانس ٹیم بھی پہنچ گئی جدید ترین آلات سے لیس پنجاب بھر میں اس نوعیت کی صرف دو ٹیمز ہیں جن کے پاس تھرمل امیجنگ کیمرہ سرچ کیم سمت جدید آلات ہیں اور یہ سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے ماہر ہیں ‘ چونکہ ریسکیو آپریشن درست سمت میں جا رہا تھا سو چھیڑ چھاڑ نہ کرتے ہوئے آپریشن جاری رکھا گیا۔ ریسکیو ٹیم نے اللہ نبی (ص) کو یاد کرتے ہوئے رسی کو باہر کھینچنا شروع کیا بچہ بورنگ کے سوراخ میں با آسانی اوپر آنے لگا ریسکیو ٹیم پر امید ہو گئی ورثاءکی جان میں جان آئی رسی با آسانی کھنچتی چلی جا رہی تھی اور اس کے سرے پر بندھی کنڈی عیسی کے گرد زندگی کا حفاظتی حصار بنی ہوئی تھی رسی دسیوں فٹ باہر کھینچ لی گئی قریبا سو فٹ رسی باہر آچکی تھی جلدناگہانی آفت ٹل جانے کی نوید سنانے کا خیال ریسکیو اہلکاروں کے ذہن میں کوند رہا تھا باہر آتی رسی کو دیکھ کر چند لمحوں میں اپنے بچے کو بانہوں میں اٹھا لینے کا خیال ورثا کے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز اور بے ترتیب کئے جا رہا تھا، رسی اچانک رک گئی اب یہ باہر نہیں آ رہی تھی زمین میں پیوست پلاسٹک کے پائپ بیس پچیس فٹ زمین نیچے کچھ اس طرح سے ٹیڑھے تھے یا دب چکے تھے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اب عیسیٰ کو رسی کے ذریعے باہر کھینچنا ممکن نہ رہا۔ ریسکیو ٹیم کو دھچکا لگا ورثاءکے دل ڈوبنے لگا‘ریسکیو ٹیم نے گھر کی عمارت کو اس جگہ سے ہیوی مشینری کے ذریعے توڑ کر زمین میں کھدائی کرتے ہوئے بچے تک پہنچنے کا فیصلہ کیا والدین نے پل بھر میں حامی بھر لی فوراً ہیوی مشینری آپریٹرز سے رابطہ کیا گیا بیول سے ایکسکیویٹر بکٹ مشین منگوائی گئی اور کھدائی شروع کر دی گئی گھر کے احاطہ اور اطراف میں لوگوں کا جم غفیر تھا سوشل میڈیا پر اس گھر پر اترنے والی ناگہانی آفت کے مناظر لائیو دکھانے کی دوڑ جاری تھی لوگوں کا تجسس بھیڑ اور مشورے ریسکیو ٹیم کے آپریشن میں حائل ہو رہے تھے جبکہ ٹیم ان روکاوٹوں سے توجہ ہٹا کر جلد از جلد زمین کھود کر بچے تک پہنچنا چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب زیادہ وقت نہیں بچا بچے کو آکسیجن نہیں پہنچ رہی اور مزید دیر ہوئی تو بچہ جانبر نہ ہو سکے گا یہ پنکھا بورنگ کے دھانے پر لاتے تاکہ ہوا کے ساتھ آکسیجن اندر جا سکے اور پھر اسے ہٹا کر کھدائی شروع کر دی جاتی انہوں نے ایک لمبی سلاخ کو سرسے ایل کی شکل میں موڑا اور اسے بورنگ میں اتار کر بچے کے نیچے کی جانب اس طرح سیدھا کیا کہ بچہ نیچے نہ سرک سکے ان نامساعد حالات میں ریسکیو ٹیم کو سب سے بڑی مدد مشین آپریٹر جمعہ خان نے فراہم کی یہ ایکسکویٹر مشین کام سمجھ کر نہیں جہاد سمجھ کر چلا رہا تھازمین کی کھدائی ہوتی گئی ریسکیو ٹیم بچے کے نزدیک پہنچ چکی تھی فیصلہ کن لمحات تھے انچارج ثاقب جنجوعہ نے خود نیچے اترنے کا فیصلہ کیا کھدائی کے باعث اعتراف سے مٹی گرنے کا خدشہ تھا جان جا سکتی تھی ریسکیو آپریشن ناکام ہو سکتا تھا اور بطور انچارج ثاقب نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور یہ رسک لے اللہ پاک نے مدد فرمائی پائپ کو مزید کاٹنے توڑنے کے بعد بچہ انکی دسترس میں تھا انہوں نے ہاتھ بڑھا کر بچے کو باہر کھینچ لیا ریسکیو ہیروز نے اپنے انچارچ کو عیٰسی کو بانہوں میں بھر کر ورثاء کے حوالے دیکھا سجدہ شکر ادا کیا گیا لوگوں کو روکتے ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے جمعہ خان کو ہدایات دیتے آپریشن میں انچارج ثاقب جنجوعہ کے دست راست بابر ھاشمی خوشی سے نہال ہو گئے بچے کو گود میں اٹھا کر چوما‘ مگرریسکیو ٹیم اب بھی مطمئن نہ تھی آکسیجن کی کمی کے باعث بچے کی رنگت بدلی ہوئی تھی فورا ریسکیو وین بچے کولے کر ٹحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال روانہ ہوگئی جہاں بچے کو طبی امداد فراہم کی گئی۔کیا اپ جانتے ہیں پنجاب میں ریسکیو ورکر کی یونیفارم کا رنگ سبز کیوں ہے؟ کیونکہ جنت میں فرشتوں کا لباس اسی رنگ کا ہو گا جب اللہ کسی کی مدد کا ارادہ کرتا ہے تو آسمان سے فرشتے اور زمین سے فرشتہ صفت انسان بھیجتا ہے۔ناقدین کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر محض چند روپوں کی خاطر جان دی جا سکتی ہے نہ جان بچائی جا سکتی ہے اس کام کے لئے اللہ اپنے خاص بندوں کو چن لیتا ہے ‘ اللہ فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا اور مال وزر کی ہوس میں لتھڑے کسی کم ظرف کے نصیب میں انسانیت کو بچانے کی سعادت نہیں ہو سکتی۔
276