بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں پنچاب کے دیگر شہروں میں کیا کچھ ہوا اس کا مجھے کچھ خاص اندازہ نہیں لیکن اپنے شہر میں جو اودھم مچا وہ زبان زد خاص و عام ہے اس اودھم نے تقریباََ چار ماہ بعد مجھے کالم لکھنے کے لیے مجبور کردیا بہت سے معاملات تھے اور ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک الجھا ہوا ہوں ذہنی یکسوئی شاید کہیں خزاں کے بوسیدہ پتوں کی طر ح اُ ڑ گئی ہے بار بار لکھنے کو جی کرتا ہے لیکن موقع نہیں ملتا آج موقع ملا تو سوچا اپنی عورتوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے والوں کے ذہن کے کچھ دریچے وا کردوں
اسلام سے قبل عربوں کے حالات تاریخ کے کسی بھی طالب علم سے ڈھکے چھپے نہیں کہ کیسے عرب لوگ اپنی منکوحہ عورتوں کو بھرے بازار میں بیچ دیتے تھے مجھے نہیں پتا کہ کن لوگوں نے کیسے حلف دیا اورکیوں اتنا شور مچا ؟ یار دوست کہتے ہیں کہ حلف لینے دینے والوں نے کہا کہ گروپ کو مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے رن طلاق کا حلف قرآن مجید پر لیا گیا اب یہ خبر نہیں کہ حلف توڑنے والوں نے اب تک کیا کیا؟ اور ایسی نوبت کیوں پیش آئی کہ اپنی عورتوں کوگروی رکھناپڑا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ گروپ کو باندھنے کے لیے نہیں تھا ؟بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب حلف دینے اور لینے والے ہی دے سکتے ہیں اس کالم میں ہم صرف اسلامی نقطہ نظر سے اس شرطیہ طلاق کا معاملہ سمجھنے کی کوشش کریں گے
اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے اس سے کوئی شخص انکا ر نہیں کرسکتاکہ انسان خود اپنے لیے مصیبتیں کھڑی کرتاہے اسلام اسے مصیبت سے نکلنے کا راستہ بتاتاہے تاریخ فقہ میں دو معتبر نام ہیں ایک امام محمد ؒ اور دوسرے خصاف ؒ جنہوں نے اپنی کتابوں بالترتیب کتاب الحیل اور الحیل والمخارج میں کچھ مسائل سے نکلنے کے لیے حیلے بیان فرمائے ہیں انہی کتب میں سے ایک حیلہ جو امام اعظم امام ابو حنیفہؓ سے منسوب ہے اور اس کا تعلق بھی شرطیہ طلاق سے ہے اگر وہ لوگ جنہوں نے رن طلاق کا حلف لیا تھا تو انہیں اس حلف کو توڑنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا کیوں کہ اگر شرط پوری ہوتو طلاق ہوجاتی ہے اما اعظم ابو حنیفہؓ سے منسو ب حیلہ یہ ہے
ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو مجھ سے خلع مانگے اور میں خلع نہ دوں تو تجھے تین طلاقیں اور دوسری طرف بیوی نے بھی قسم اٹھائی کہ اگر رات ہونے سے پہلے میں تجھ سے خلع نہ مانگوں تو میرے تمام غلام آزاد ہوجائیں گے اور میں تما م مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں گی اس مسئلہ کو اما اعظمؓ کی خدمت میں پیش کیا اور یہ یقینی صورتحال تھی جس میں طلاق بائنہ بھی ہوجاتی اور دوسری صورت میں سار ا مال اور غلام بھی نکل جاتے اس سلسلہ میں اما م اعظم ایک حیلہ بیان کرتے ہیں تاکہ دین کے احکام کی مخالفت کیے بغیر اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیے بغیر اس غلطی کا ازالہ ہوجائے امام ابو حنیفہؓ عورت سے کہتے ہیں کہ تم اپنے شوہر سے خلع کی درخواست کرو ،عورت اپنے شوہر سے درخواست کرتی ہے کہ میں تم سے خلع چاہتی ہوں اب اما م اعظم ؒ خاوند سے کہتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے کہو کہ میں تم کو اس وقت خلع دوں گا جب تم مجھے ایک ہزار درہم دوگی ،خاوند نے یہی الفاظ عورت کو کہہ دیے پھر اما اعظم ؒ عورت سے کہتے ہیں کہ تم کہو کہ مجھے یہ رقم قبول نہیں عورت خاوند سے یہی الفاظ کہہ دیتی ہے کہ مجھے یہ رقم قبو ل نہیں جس پرا مام اعظم ابو حنیفہؓ فتویٰ دیتے ہیں کہ تم اب اپنے شو ہر کے ساتھ رہ سکتی ہوکیوں کہ تم دونوں نے اپنی قسم پور ی کرلی۔اس حیلہ سے دونوں میاں بیوی کا حلف بھی پورا ہوگیا اور دونوں کی مشکل بھی ٹل گئی اور ان کا گھر قانونی موشگافیوں اور غصہ کے نتائج سے بھی محفوظ ہوگیا ۔
قارئین میں امید کرتاہوں کہ حلف توڑنے والوں نے حلف توڑنے سے پہلے کسی مفتی سے رابطہ کرکے حل تلاش کیا ہوگا اگر نہیں تو پھر اللہ حافظ ہے شاید محبت اور جنگ کے علاوہ سیاست میں بھی سب جائز ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا جائیداد یا کوئی رقم کسی اکاؤنٹ میں رکھ کر حلف نہیں دیا جاسکتاتھا ؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گابعض کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا کسی کو کیا پتا؟جن کے ذہنوں میں یہ فطو رہے وہ اپنے ایمان کی فکر کریں اللہ اور اس کے پیارے حبیبﷺ نے قبرو حشر میں کیا ہوگا کن اعمال کی کیا سزا ہوگی سب بتا دیا تو اب جو جان بوجھ کر جہنم میں جانا چاہے تو بے شک جائے یہ کہنا فضول ہے کہ مرنے کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا یونہی اب طلاق کا حلف دے کر کہیں کہ طلاق نہیں ہوئی تو بے شک کہتے رہیں جنہوں نے توڑا ان کا نکاح فسق ہوگیا کیونکہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے اللہ ان عقل کے اندھوں کو ہدایت عطا فرمائے اور اگر ان کے مقد رمیں ہدایت نہیں تو۔۔۔؟{jcomments on}
87