252

رحم دل خاتون مختار بیگم

مختار بیگم ساری زندگی اللہ تعالیٰ سے محو گفتگو رہیں۔اس دن میں ایسے اداس اور پریشان تھا کہ جیسے میری والدہ ہم سب کو چھوڑ کر اچانک چلی گئی ہوں۔ جب مختار بیگم کی وفات کی خبر مجھے ملی تو میں نے ایک گلاس پانی دس بار پیا۔ جب یہ بہترین کردار کی مالک فوت ہوئی تو میں انکے گھر گیا تو میرا چھوٹا بھائی توقیر والدہ کے پاس ایسے بیٹھا تھا کہ جیسے ایک برس کا بیٹا اپنی والدہ کا دوپٹہ پکڑ کر ہر اس جگہ جا رہا ہو جہاں اسکی امی جا رہی ہوں۔ مختار بیگم کی تاریخ پیدائش 1948ہے اور تاریخ وفات 8 جون 2023 ہے۔اس دن توقیر کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ہم سب توقیر کو میت سے اٹھا کر کمرے میں لے آئے مگر میرا یہ دوست زور زور سے روتا ہوا دکھائی دیا۔ فدا الحق کہتے ہیں کہ جب میری والدہ کو کوئی بھی مسئلہ یا بیماری ہوتی تو میں اچانک پاکستان آ جاتا تھا۔ مگر اس روز فدا الحق نے اپنی والدہ کی وفات سے دو گھنٹے پہلے فون پر کافی گپ شب ہوئی اور پھر فون بند کرنے کے بعد دوبارہ فون آیا کہ آپکی جنت یعنی اماں جنت میں چلی گئی۔ فدا الحق بے ہوش ہوتے ہوئے بچا۔ مگر اللہ کے ہر کام میں مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس دن میری خالہ کے تمام بیٹے اور سر کا تاج یعنی خاوند مظہر الحق اپنے ارد گرد مختار بیگم کو ڈھونڈ رہے تھے مگر جو اللہ کے پاس چلا جائے وہ واپس ہر گز نہیں آ سکتا۔ آپ کے چار بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹوں کے نام ملاحظ فرمائیں۔ضیا الحق فدا الحق اکرام الحق اور توقیر احمد جو میرا دوسرا کندھا ہے اور ساری زندگی رہے گا انشاء اللہ۔ جب میں اپنے بزرگ راجہ مظہر الحق کے پاس بیٹھتا ہوں اور جب بات کرتا ہوں تو مجھے انکی آنکھوں میں انکی رفیق حیات رخشندہ ستارے کی طرح جگمگ جگمگ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور پھر یہ فرد دھیرے دھیرے آنسوں نچھاور کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جس شخص نے ساری زندگی ایک ایسی مثبت اثرات والی بیوی کے ساتھ زندگی گذاری ہو اسکا ایک ایک لمحہ 24 گھنٹوں کا روپ دھار لیا کرتا ہے

اور میں جب بھی ان سے ملتا ہوں تو مجھے یہ آگے پیچھے گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مظہر الحق بتاتے ہیں کہ جو پیسے انکے پاس ہوتے تھے وہ یا تو مسجد کیلئے یا پھر غریب افراد کو دے دیا کرتی تھیں۔ فدا الحق، ضیاء الحق اکرام الحق اور توقیر احمد بتاتے ہیں کہ ہم جب پیسے اپنی والدہ کو دیتے تھے تو وہ یا تو غریبوں کو دے دیتی تھی یا انکے لیے کپڑے یا راشن لے لیا کرتی تھی۔ جب ہم ان سے پوچھتے تھے کہ یہ پیسے تو آپ کیلئے تھے تو پھر ہماری والدہ کا جواب ملاحظہ فر ما ئیں۔ ”میر ے پیارے پترو میں قیامت والے روز اللہ کو کیا جواب دوں گی”۔ پھر اس کے بعد ہم سب خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ فدا الحق سے میری فون پربات ہوتی رہتی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں توقیر سے کہتا ہوں کہ تم اور ضیاء بہت خوش قسمت ہو کہ ہر روز ہر لمحے جنت کی سیر کر رہے ہوتے ہو اور میں اور اکرام الحق کبھی سوتے ہوئے خواب دیکھتے ہیں تو کبھی جاگتے ہوئے اپنی والدہ کی تلاش میں رہتے ہیں اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو انگلینڈ ہیں۔ ضیاء الحق اور توقیر احمد سردار مارکیٹ پاکستان میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں اپنے والد مظہر الحق کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر۔ فدا الحق 35 برس سے اور اکرام الحق 30 برس سے انگلینڈ میں خاندانکے مستقبل کو سنوارنے کیلئے رواں دواں ہیں ۔ آپکی والدہ محترمہ کا گاؤں پاہگ ہے۔

آپ اپنے گاؤں میں کسی بھی گھر میں اگر مسئلہ درپیش آ جاتا تو اپنا سب کچھ قربان کر کے اسے حل کروا کر مطمئن ہو جاتی تھی اور اسی وجہ سے اللہ پاک نے اس عورت کو بے پنا خزانوں سے نوازا تھا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور ساری زندگی رہے گا انشاء اللہ۔مظہر الحق بتاتے ہیں کہ میری زوجہ کے دل و دماغ میں ہروہ دکھ ہوتا تھا جو کوئی بھی شخص جھیل رہا ہوتا تھا۔ گھر آ کر خاموش ہو جایا کرتی تھی اور میں پوچھتا تھا کہ کیوں پریشان ہو تو کہتی تھی کہ فلاں شخص بہت پریشان ہے اور میں آج اسکی پریشانی ختم کر دوں گی اور پھر میرا جواب آگے سے یہ ہوتا تھا۔اس معاملے میں آپ کے ساتھ بہترین انداز میں کھڑا ہوں“۔اسکے بعد میری رفیق حیات مزید خوش ہو جاتی تھی اور میں بھی مطمئن ترین نظر آتا تھا مگر آج میں کوئی بھی کام اپنی زوجہ کے بغیر کرتا ہوں تو خودکو اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ مگر اللہ کے ہر کام میں مصلحت چھپی ہوتی ہے۔ آج رات کو جب میں فدا الحق سے فون پر بات کر رہا تھا تو میں نے کہا پاکستان کب آؤں گے تو کہنے لگے میں اور اکرام بہت جلد آئیں گے اپنے والد گرامی اور بھائیوں اور بہن سے ملنے مگر والدہ کی قبر کے مٹی کے ڈھیر کو دیکھ کر معلوم نہیں کیا کیا گمان ذہن میں گھومتا رہے گا۔ جس دن انکی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو جب جنازہ اٹھانے لگے تو توقیر بھائی نے

زور زور سے ہچکیاں اور دھاڑیں مار مار کر سارے ہجوم کو سکتے میں طاری کر دیا اور کہنے لگے۔میری اماں کو مت لے کر جاؤ۔ میں انہی نہیں جانے دوں گا۔ کیونکہ توقیر ہر وقت اپنی والدہ کے ساتھ رہتا تھا تو اچانک موت نے اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ جب میت اٹھائی گئی تو توقیر کہنے لگا کہ میں بھی اپنی والدہ کے ساتھ جہاں وہ جا رہی ہیں وہاں جاؤں گا۔ اس وقت میں نے توقیر بھائی کو گلے سے لگایا اور ہم دونوں نے آنسوؤں کی ندیاں بہا دیں اور پھر میں نے توقیر کا ہاتھ پکڑا اور جب تک قبرستان نہیں پہنچے میں نے توقیر کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جب میں نے اسکا ہاتھ چھوڑا تو معلوم نہیں کدھر بھاگ جائے گا۔ جب کبھی میں انکے بیٹوں سے بات کرتا ہوں تو سب کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم سب کی کامیابی کے پیچھے ہماری والدہ محترمہ کا ہاتھ اور سایا ہے اور یہی بات راجہ مظہر الحق کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

جب انکی والدہ مجھے دیکھتی تھیں تو مجھ سے اتنا پیار کرتی تھی کہ جیسے اپنے بیٹے توقیر سے کرتی تھی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ میرا مالک اس دُنیا کی جنت کو آگلے جہان کی بہترین جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ انکی ساری فیملی اور اولاد کو خوشیاں دیکھنی نصیب کرے اور کوئی دکھ کوئی تکلیف انکے پاس سے بھی نہ گزرے آمین۔ جانے سے پہلے ایک شاعر کا شعر سنیں اور پھر حوالے رب کے
ڈھا دے مندر ڈھا دے مسجد
ڈھا دے جو کج ڈھیندا ای
پر کسے دا دل نہ ڈھاویں
رب دلاں وچ رہندا ای

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں