پروفیسر محمد حسین
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے متعلق قران مجید میں فرمایا کہ اے نبیؐ ہم نے تو آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجاہے ہمارا ایمان ہے کہ واقعی حضور نبی کریمؐ کا تشریف لانا سارے عالم کے لیے ایک ایسی بڑی نعمت تھی۔ کہ اگر دُنیا اس سے محروم رہتی تو یہی کہا جاتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ساری ہی رحمتوں سے محروم ہوگئی۔حضور نبی کریم ؐ کا تشریف لانا تمام انسانوں کے لیے دینی اور دُنیاوی دونوں اعتبار سے رحمت تھا۔ حضرت محمد ؐہی نے یہ سمجھایا کہ بندے اور اللہ کا صحیح تعلق کیا ہے اور بندے پر اللہ کے حقوق کیا کیا ہیں۔ اور بندہ اپنے مالک کو کیسے راضی کر سکتا ہے اور انسان کو کس لیے پیدا ہے اوراس زندگی کا انجام کیا ہونے والا ہے اور آخرت کی زندگی میں اسے کامیابی کیسے ہو سکتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر انسان ان تمام باتوں سے با خبر رہتا تو یہ اس کے لیے کتنی بڑی محرومی تھی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ رسول کریم کی ہدایات سے محروم ہیں یا وہ ان ہدایات کے مطابق عمل نہیں کرتے وہ کیسے کیسے عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں وہ نہیں جانتے توحید کیا ہے۔ وہ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے آگے جھکتے ہیں۔ ان سے امیدیں لگاتے ہیں اور ان کے آگے ہاتھا پھیلاتے ہیں ۔ حالانکہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ دینا چاہیے تو کوئی روک نہیں سکتا اور نہ دے تو کوئی دلوانہیں سکتا نبی پاک نے اللہ کے بارے میں ان کے عقیدے درست کئے اور توحید کا صحیح مطلب سمجھایا انہیں ہر ایک کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ تعالیٰ کا بندہ بنایا اور سارے جھوٹے خداؤں کو ہٹا کر ایک مالک الملک کی رعیت بنایا یہ اتنی بڑی رحمت تھی کہ جس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔ آج بھی انسانیت کے سارے دُکھوں کی اگر جڑ ہے تو یہی کہ اس نے اس رحمت کی قدر نہیں پہچانی اور اللہ کے بارے میں جو عقیدہ حضرت محمدؐنے دیا تھا۔ اسے صحیح طریقہ پر نہیں اپنایا پھر دیکھئے کہ عبادات کے سلسلے میں بنی کریم ؐ نے کیا رہنمائی عطا فرمائی آپ ؐہی نے تو انسان کو یہ بتایا کہ وہ اپنے حقیقی معبود کی عبادت نماز جو دن رات میں پانچ مرتبہ بندے کو اپنے رب سے قریب کرتی ہے۔ حضور اکرم ؐ نے یہی سکھائی یہ وہ عبادت ہے کہ اگر ٹھیک طریقہ سے ادا ہو جائے تو اس کا مقام ایسا ہے جیسے بندہ اپنے رب کے دربار میں حاضری دے آیا ۔ پھر یہی وہ نماز ہے اگر ٹھیک ٹھیک شرطوں کے مطابق ادا ہو جائے تو یہ انسان کو تمام برائیوں سے روک دیتی ہے۔ دینی اعتبار سے حضور اکرم کا تشریف لانا ایسی بڑی رحمت ہے کہ اگر انسانیت اس رحمت سے محروم رہتی تو وہ اسی طرح اور ہاماور خرافات کا شکار رہتی جیسا کہ وہ حضور اکرمؐ کے تشریف لانے سے پہلے تھی ۔ جیسا کہ اب بھی ا س رحمت سے محروم انسان اوہام اور آفات کا شکار ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے دینی اعتبار سے رحمتہ للعالمین کی پیروی اختیار نہیں کی وہ رحمت سے محروم آج بھی پہاڑوں اور دریاؤں کوپوجتے ہیں۔ پتھروں اور قبروں سے مرادیں مانگتے ہیں۔اللہ کو نہیں مانتے لیکن سینکڑوں مصنوعی خداؤں کی غلامی میں جکڑے رہتے ہیں۔ نفس اور خواہشات کے ہاتھوں بے لگام ہو کر بالکل بے بس ہو جاتے ہیں۔ حضور اکرمؐ دنیوی اعتبار سے بھی اللہ تعالی کی سب سے بڑی رحمت ہیں۔ آپ ؐ ہی نے تو انسانوں کو زندگی کی وہ معتدل راہ دکھائی جس پر چل کر انہیں حقیقی سکون حاصل ہوا اور آج بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ ؐ نے یہ بتایا کہ ایک فرد دوسرے معاملہ کس طرح کرے اجتماعی معاملات میں کس طرح ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھا جائے حکام اور محکومین کے تعلقات کیا ہوں غریب اور امیر کے درمیان تعلقات کی صحیح نوعیت کیا، ہو آپ ؐ ہی نے سود کو حرام فرمایا کیونکہ اس کی وجہ سے غریب زیادہ غریب ہوتے چلے جاتے ہیں اور امیر زیادہ امیر ہوتے رہتے ہیں۔ آپ ؐ ہی نے تو کاروبار کے وہ طریقے بتائے جس کی رو سے ایک فریق دوسرے کی حق تلفی نہیں کر سکتا آپ ؐ ہی نے تو خریدو فروخت کے اُن تمام طریقوں کو ختم کیا جس میں کسی ایک کا فائدہ یقینی ہواور دوسرے کا غیر یقینی ہو، آپ ؐ ہی نے تو عیش و عشرت کے ان دروازوں کو بند فرمایا جن سے انسانی تباہی داخل ہوتی ہے، آپ ؐ ہی نے والدین کے ساتھ بہترین سلوک کی تلقین فرمائی رشتہ داروں اور عزیزوں کے حقوق کی تاکید فرمائی ۔ انسانوں کو جوڑنے کی صورتیں بتائیں فرض شناسی، احسا س ذمہ داری، عفت وپاک دامنی ، شرافت اخلاقی غرضیکہ انسان کو ان تمام کوخوبیوں سے آراستہ فرمایا جن کے بغیر وہ انسان نہیں بن سکتا تھا۔
آپؐ ہی نے انسانی جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کی حفاطت کے لیے وہ انتظام فرمایا جس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔ انسانی جان کے تحفظ کے لیے شریعت محمدیؐ میں قتل کی سزا قتل ہے، مال کی حفاظت کے لیے چور کی سزا ہاتھ کاٹناہے اور عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے تہمت لگانے کی سزا اسی کوڑے اور زنا کی سزا رجم ہے۔ اگر زرا انصاف کی نظر سے سو چئے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جو ہدایات دی ہیں وہ کیسی رحمت ہیں۔ پھر اتنا ہی نہیں کہ رحمت عالم نے انفرادی اور اجتماعی بہبود کے لیے کچھ ضابطوں اور اُصولوں کی تلقین کر دی ہو اور بس ۔۔۔ ا س سے ملتے جلتے کام کسی نہ کسی حد تک بعض مصلحوں اور مفکروں نے کر لیے اس نبی کریم ﷺ نے محض اتنا ہی نہیں کیا آپ ؐ نے ان اُصولوں اور ضابطوں کو عملاً نافذ کرنے اور انہیں قیامت تک اپنی اُمت پر قائم رکھنے اور خدائی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے مسلسل جد و جہد بھی کی ہے۔ آپؐ نے اُمت کے لوگوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند رکھیں اسلام کے جھنڈے کو اُونچا رکھیں اور اپنے عقیدوں اور خدا کی ضابطوں کی حفاظت کے لیے ہمیشہ جان لڑاتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرتے ہیں چاہیے حالات کیسے ہی سخت ہوں وہ اپنی اس ذمہ داری سے منہ نہ موڑیں۔کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے اللہ کو راضی نہ کر سکیں گے اس طرح نبی اکرم ؐکی ذات مبارک ساری دُنیا کے لیے رہتی دُنیا تک رحمت ہے اور اب یہ ان لوگوں کا کام ہے جو حضور اکرمؐ کی پیروی کا دم بھرتی ہیں کہ وہ دُنیا کو یہ سمجھائیں کہ واقعی حضور نبی کریم ﷺ کا لایا ہوا دین سارے عالم کے لیے کیسی بڑی رحمت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور اپنی حیثیت اور اہمیت کو پہچانیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یوں ہی بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے وہ زندگی جو اللہ کے دین پر قائم رہنے اور اسے قائم کرنے کی جدو جہد میں بسر ہو جائے وہی حقیقی زندگی ہے نبی رحمت نے اور ان کے صحابہ کرام نے ایسی ہی زندگی کا نمونہ ہمارے سامنے رکھا اور ایسی زندگی کی تلقین ہمیں فرمائی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی پاک کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں وہ کام کرنے کی سعادت بخشے جن پر ہمیں مامور کیا گیاہے۔ اور جن کی بدولت ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔ آمین
144