راولپنڈی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جرائم کی شرح میں اضافے کی وجہ سے شہریوں کا پولیس پر اعتماد کم ہو رہاہے۔شہریوں کوچوری شدہ گاڑیاں، موٹر سائیکل اور موبائل فون ملنے کی کوئی امید نہیں ہوتی مگر وہ محض قانونی پیچیدگی سے بچنے کیلئے ایف آئی آر درج کروا لیتے ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ راولپنڈی میں رواں سال مجموعی طور پر 2200 سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں۔ سال کے پہلے 50دنوں میں 38 افراد قتل ہوئے، 121 کو اغوا کیا گیا جبکہ زیادتی کے 16 واقعات پیش آئے۔ شہریوں سے ڈکیتی کی واردات میں 1324 موبائل فون چھین لئے گئے جبکہ دیگر واقعات میں کروڑوں روپے کی نقدی، زیورات، مویشی، اسلحہ اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا گیا۔ محض 50 روز میں 102 گاڑیاں چوری ہوئیں جبکہ 5گاڑیاں چھین لی گئیں یوں کل107 شہری گاڑیوں سے محروم ہو گئے، اسی طرح 591 موٹر سائیکل چوری ہوئے جبکہ 78 چھین لئے گئے۔ پولیس ذرائع سے ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق رواں سال ایک خواجہ سرا سمیت کل 37 افراد کو موت کی گھاٹ اتارا گیا جبکہ اقدام قتل کے درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 70 ہے۔ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر 2 افراد قتل ہوئے جبکہ 11 کو زخمی کیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران 114 افراد کو اغوا کیا گیا جن میں شادی شدہ خواتین سمیت 84 لڑکیاں، 20 لڑکے اور 10 کمسن بچے اور بچیاں شامل ہیں۔ رواں سال 9لڑکیوں، 2 لڑکوں، ایک 6 سالہ بچے اور 11 سالہ بچی سمیت کل 13 کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق لڑکیوں میں سے ایک کو اسلحہ کی نوک پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 6 سالہ بچہ اور ایک لڑکا اجتماعی بدفعلی کا شکار ہوئے۔ اگر وارداتوں کے مقامات کاجائزہ لیں تو وارداتوں کا دباؤ تھانہ نصیر آباد، کینٹ، مورگاہ، آراے بازار، پیرودھائی، وارث خان، ریس کورس، ایئر پورٹ، جاتلی، گوجر خان، ٹیکسلا میں زیادہ رہا، جبکہ تھانہ چونترہ، چکری اور روات میں قبضہ مافیا کا راج ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط تر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں راولپنڈی پولیس کی جانب سے متعدد بار لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن کیے گئے لیکن بدقسمتی سے پائیدار حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے دیرپا امن قائم نہ سکا۔ تھانہ دھمیال کی بات کی جائے تو یہاں بھی حالات دوسرے تھانوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔صورت حال یہ ہے شہریوں کا راولپنڈی پولیس پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ شہری اپنی چھینی گئی یا چوری ہوئی اشیاء کی ایف آئی آر صرف اس وجہ سے درج کروانے لگے ہیں کہ انہیں ان مسروقہ اشیاء کے مس یوز کی وجہ سے آئندہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اسے بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق راولپنڈی کے63 فیصد سے زائد باسی ڈکیتی اور چوری کی واردات رپورٹ کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ ضلع میں پائیدار امن قائم نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ آئے روز ایس ایچ او کی تبدیلی بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کر دی جاتی ہے۔ زیادہ تر تبادلے سیاسی بنیادوں یا وقتی عوامی پریشر کو دور کرنے کے لیے ہوتے ہیں ناکہ کارگردگی کی بنیاد پر۔ محکمہ پولیس کو چاہیے کہ وہ کوئی موثر ار جامع ضابطہ وضع کرے جسں کی بنیاد پر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں۔ سید شہزاد ندیم بخاری سابقہ سی پی او کی جانب سے قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کو عوامی سطح پر کافی پذیرائی ملی بعد ازاں انہوں بھی ٹرانسفر کر دیا گیا اس تبادلے کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی اور تھانہ چونترہ و چکری میں لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن ان کے تبادلے کی بنیادی وجہ بنا۔ اب ان کی جگہ سید خالد ہمدانی کو نیا سی پی او راولپنڈی تعینات کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ نئے سی پی او صاحب روٹین سے ہٹ کر ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے شہریوں کو صورتحال میں واضح فرق نظر آئے گا اور ان کا راولپنڈی پولیس پر اعتماد دوبارہ بحال ہو گا۔
141