208

راولپنڈی میں بڑھتے جرائم کا سہولت کار گداگر مافیا

جواد اصغر شاد راولپنڈی

سبھی جانتے ہیں کہ گداگری ایک لعنت ہے اور موجودہ دور میں یہ باقاعدہ ایک پیشے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ راولپنڈی میں ان گداگروں کی بھرمار ہے اور یہ مافیا ہر گزرتے دن کیساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے راولپنڈی پولیس کی جانب سے صورتحال کی بہتری کیلئے کوئی سنجیدہ کاوشیں نظر نہیں آتیں۔ گلیوں، شاہراؤں، بازاروں، کالجز، یونیورسٹیز میں یہ بھکاری شہریوں سے جبراً بھیک لینے پر آمادہ ہوتے ہیں اور انکار پر بے دریغ بددعائیں دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ غیر مستحق اور پیشہ ور گداگروں کا وجود معاشرے کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دورِ حاضر میں جس تیزی سے معاشی ابتری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، چند افراد تو واقعی پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوں گے، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان پیشہ ور بھکاریوں نے مستحق افراد کا حق بھی مار لیا ہے، بھیک مانگنا اب ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ وقتاً فوقتاراولپنڈی شہر میں ان بھکاریوں کے کئی منظم نیٹ ورکس بے نقاب ہوئے اور دوران تفتیش ان گداگروں نے اعتراف بھی کیا کہ انکا کام منظم طریقے سے نوجوان نسل کو نشے و دیگر برائیوں میں مبتلا کرنا ہے، اس کے علاوہ چوریوں، ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور سٹریٹ کرائمز کی بھی بڑی وجہ یہی گداگر ہیں۔ اس کے علاوہ یہی بھکاری ٹریفک کی روانی میں خلل کا باعث بھی بنتے ہیں۔ گداگر مافیا عورتوں، بچوں،معذوروں اور خواجہ سراؤں کا استعمال کر کے معاشرے کے نرم دل افراد کو نشانہ بناتے ہیں اور اس مافیا نے راولپنڈی میں باقاعدہ علاقے بانٹے ہوئے ہیں۔ ایک گروپ دوسرے گروہ کے علاقے میں بھیک نہیں مانگ سکتا۔ اس حوالے سے راولپنڈی پولیس اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی تو کوئی خاص نہیں البتہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئر پرسن سارہ احمد اس معاملے میں کافی متحرک نظر آتی ہیں اور رواں سال ابھی تک اس ادارے نے 722 بچوں کو حفاظتی تحویل میں لیا ہے۔
گداگر مافیا کی وجہ سے محض سماجی برائیوں میں ہی اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ جرائم کی شرح میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عورتیں اوربچے میٹرو بس سروس و دیگر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں اور شہریوں کی جیب کتر لیتے ہیں، تیز دھار بلیڈ کے استعمال سے مردوں کی جیب اور خواتین کے پرس کاٹ لئے جاتے ہیں۔ بھکاری خواتین گھریلو ملازمین کے روپ میں گھروں میں چوری کی مرتکب ہوتی ہیں اور اکثر تاوان کیلئے مالکان کے بچے بھی اغوا کر لیتی ہیں۔ رش والے مقامات پر بچوں کو نشہ آور گولیاں کھلا کر اغوا کرنے کے واقعات بھی آئے دن سامنے آتے ہیں۔ ان گداگروں کی بڑی تعداد منشیات فروشی اور اسلحے کی سمگلنگ میں بھی پوری طرح ملوث ہے جنکا نیٹ ورک منشیات کی سپلائی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔ منشیات کی سپلائی کے علاقہ جسم فروشی کا بڑھتا رجحان بھی اسی مافیا کی دین ہے، گداگر خواتین چوک چوراہوں میں کھڑے ہو کر نوجوان نسل کو دعوت گناہ دیتی نظر آتی ہیں۔
اگر راولپنڈی پولیس انکے خلاف کارروائی کرتی بھی ہے تو اس مافیا کی پشت پناہی کرنے والے با اثر ہمیشہ قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ 85 فیصد گداگر جسمانی طور پر محنت مزدوری کے قابل ہوتے ہیں لیکن یہ ہر بندے کا راستہ روک کر پیسے وصول کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ملک کے طول و عرض سے بچوں کو اغوا کر کے انھیں جسمانی طور پر معذور کر دیا جاتا ہے یا پھر نشے کا عادی بنا دیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنی شخصیت بھول جائیں اور چپ چاپ دی جانے والی ہدایات پر عمل کریں، اس کے بعد ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے اور انھیں سمجھایا جاتا ہے کہ شہریوں سے پیسے کس طرح ہتھیانے ہیں۔ پورے پاکستان کی
طرح راولپنڈی میں بھی گداگری کا پیشہ مافیا میں بدل چکا ہے۔ شہر کے رش والے علاقے گداگروں کو کرائے پر دیئے جاتے ہیں، ہر بھکاری کی اپنی جگہ مختص ہوتی ہے، اس کے ساتھ مانگنے کے اوقات کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ جو گداگر مافیا کو سب سے زیادہ کما کر دیتا ہے، اسے اتنے ہی اچھے علاقے میں تعینات کر دیا جاتا ہے، جہاں یہ خالی گھروں کی ریکی کرتے ہیں اور پھر موقع دیکھ کر وہاں واردات سر انجام دیتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بھکاریوں کے یہ اڈے لاکھوں روپے میں ٹھیکے پر بکتے ہیں۔بعض اوقات پولیس انھیں پکڑ کر 9 ویگرنسی ایکٹ کا پرچہ دیتی ہے مگر اگلے ہی روز یہ بھکاری ضمانت پر باہر آ کر دوبارہ اپنے دھندے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ توقع ہے کہ سی پی او راولپنڈی سید شہزاد ندیم بخاری اس اہم معاملے کا نوٹس لیں گے، موثر حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اس برائی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے اور راولپنڈی شہر کو پورے صوبے کیلئے قابل تقلید مثال بنائیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں