راولپنڈی میں اتوار کے روز ایس ایچ او اپنی گاڑی میں اہل خانہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا، انہیں فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور جام شہادت نو ش کر گئے، ابھی اس واقعہ کا صدمہ طاری ہی تھا کہ ایک اور افسوس ناک واقعہ دوسرے ہی روز اسلام آباد میں پیش آگیا جس میں تین اہلکاروں کو موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا جن میں سے ایک اہلکار ہسپتال لے جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
پے درپے ایسے واقعات کا پیش آنا نہایت تشویش ناک ہے، اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پورے ملک کے عوام کے لیے یہ خبریں نہایت حیران کن ہیں کہ آئے روز پولیس اہلکاروں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ پولیس کا معاشرے میں نہایت اہم کردار ہے۔ یہی وہ محکمہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان قائم رکھا جا سکتا ہے، حکومت کی طرف سے نافذکیے گئے تمام شہری قوانین کا نفاذ پولیس کے ذریعے ہی ممکن ہو تا ہے
۔ یہ محکمہ آئین و قانون کا اصل رکھوالا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے بنیادی ادارہ پولیس کا ہے، اس ادارے کا کردار اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پولیس کا عوام کے ساتھ براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا تعلق چونکہ عوام کے ساتھ براہ راست نہیں ہوتا بلکہ ان سے عوام کافی دور رہتے ہیں لیکن پولیس اہلکار ہر دم عوام کے ساتھ براہ راست منسلک رہتے ہیں، پولیس اہلکار عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور لوگوں کے مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عوا م پر مصیبت آنے پر ان کے دکھوں کا مداوا رکرتے ہیں۔
کسی کے گھر چوری ہو جائے تو پولیس اہلکار ہی چوروں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا چوری شدہ سامان برآمد کرتے ہیں، کہیں قتل ہو جائے تو قاتلوں کی گرفتاری کی ذمہ داری بھی پولیس کی ہوتی ہے، کہیں جلسہ، جلوس یا اجتماع ہو تو وہاں بھی پولیس اہلکار ہی لوگوں کی حفاظت کے لیے موجود رہتے ہیں۔ کئی بار ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار اپنی جان پر کھیل کر عوام کی جان بچاتے ہیں اور دہشتگردوں اور تخریب کاروں سے عوام کو بچاتے ہیں۔عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کی ہے۔
اگر پولیس کا محکمہ نہ ہویا پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی سے غافل ہو جائے تو ہر طرف افراتفری پھیل جائے۔ ظالم افراد مظلوموں کو نگل جائیں، چوری چکاری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو جائے، جس کا جیسے جی چاہے ویسے ہی کرے قانون ہونے کے باوجود معاشرہ لاقانونیت کا شکار ہو جائے، مظلوموں کی دادرسی کرنے والا کوئی نہ ہو۔
جب اس انتہائی اہم شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد خود ہی محفوظ نہ ہوں تو عوام کی حفاظت کون کرے گا؟ اگر پولیس اہلکاروں کو اپنی ہی جان کے لالے پڑگئے تو عوام کی جان کون بچائے گا؟ عوام کے دکھ درد کا مداوا کون کرے گا؟ پولیس اہلکاروں پر حملے ہونا انتہائی تشویش ناک ہے
اور اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے حساس ترین شہروں میں اسلحہ لے کر سڑکوں پر آزادانہ کیسے گھومتے پھرتے ہیں کہ جب بھی جی چاہا کسی کے سینے میں گولیاں اتاریں اور بھاگ کھڑے ہوئے، نہ تو انہیں اسلحہ لے کر گھومتے ہوئے کوئی دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی قتل کرنے کے بعد کوئی گرفتار کر سکتا ہے۔ نہ جانے وہ کہاں سے آتے ہیں اور کاروائی کر کے کس طرف کو نکل جاتے ہیں؟ یہ قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ کیسے کوئی مجرم اسلحہ لے کر شہر میں داخل ہو سکتا ہے
او آزادانہ گھوم پھر کر کسی کو قتل کر سکتا ہے اور پھر قتل کرنے کے بعد بلا خوف و خطر فرار بھی ہو جاتا ہے جو کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ نہیں آتا۔
یہ ہماری ناقص کارکردگی کی اعلیٰ مثال ہے کہ ہمارے ادارے خود ہی محفوظ نہیں ہیں تو عوام کیسے محفوظ ہوں گے؟ پولیس اہلکاروں کی پے
درپے شہادتیں نہایت افسوس ناک ہیں، پولیس اہلکار جو عوام کی حفاظت پر مامور ہیں ان کا اس طرح بے دریغ قتل و زخمی کیا جانا کسی قومی سانحہ سے کم نہیں ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، اس سے ملک میں پھیلی افراتفری میں اضافہ ہو گا اور عوام جو پہلے ہی ملکی حالات سے کافی پریشان ہیں ان کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو گا۔ اللہ رب العزت شہداء کے درجات کو بلند فرمائے، جو اہلکار زخمی ہیں انہیں صحت عطا فرمائے، ان کے اہلخانہ کو صبر عطا فرمائے اور ہمارے ملک، اس کے عوام اور اداروں کی حفاظت فرمائے، آمین۔