71

ذرا سوچیں /قاضی عرفان حسین

مکرمی : وطن عزیز پاکستان عطیہ خداوندی جو کہ ہمارے اسلاف کی پر خلوص محنت اور قربانیوں کا ثمر ہے اور اسی بابرکت مہینے میں عطا ہوا تھا اس کو بنانے کے کچھ مقاصد تھے مگر صد افسوس کہ جن اغراض و مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے لئے جدو جہد کی گئی تھی اور دل ہلا دینے والے مصائب برداشت کئے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہو پا رہے ہیں اس میں شک نہیں کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اس کے علاوہ بھی اس دنیا میں مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں جن کو قرآن نے واضح اور کھلے الفاظ میں بیان کیا ہے مگر کیا کبھی ہم اہل پاکستان نے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکا ہے کہ ہم اپنے ملک اپنے ہم وطنوں سے کس قدر مخلص ہیں معاشرے پر نظر ڈالیں ‘اپنے محکمہ جات پر نظر دوڑائیں اخبار کے صفحات کے صفحات ہماری کرپشن ‘اقراء پروری ‘مار دھاڑ ‘ قتل و غارت ‘لوٹ مار ‘منی لانڈرنگ ‘اغواء برائے تاوان ‘قبضہ مافیا ‘ رشوت خوری ‘ ناانصافی الغرض کونسا ایسا برا فعل ہے جو ہمارے اس پیارے پاکستان جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ ہے نہیں ہو رہا اور یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ہمارے اس معاشرے میں ‘ہمارے ان محکمہ جات میں کون لوگ ملازم ہیں کیا یہ ہمارے اپنے ہی بھائی بندے نہیں ہیں ؟کیا ہم خود نہیں ہیں ؟ چپڑاسی سے لے کر وزیر اعظم /صدر تک اور کسی بھی محکمہ کے ادنیٰ ملازم سے لیکر اعلی ملازم تک کیا ہم خود نہیں ہیں ؟اور پھر ہم صرف انسان نہیں ہیں مسلمان بھی ہیں جن کے مذہب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے قادر مطلق نے پسند کیا ہے ان محکمہ جات میں بھارت کا کوئی شہری تو ملازم نہیں ہے تو پھر کیوں ہم خود ہی اپنے بھائیوں کا حق مار رہے ہیں ؟کیوں رشوت لیتے ہیں ؟کیوں سائلین کو رشوت دینے پر مجبور کرتے ہیں ذرا یہ تو سوچیں کہ یہ جو ناحق دولت اکھٹی کر کے گھر لے جا رہے ہیں وہ کس کو کھلائیں گے اس کمائی سے بنائی ہو ئی جائدادیں آخر لے کر کہاں جائیں گے ؟قبر میں تو بدن پہ صرف کفن ہو تا ہے ہمارے گھروں میں چھوٹے بھی مرتے ہیں اور ان کے جنازے بھی اٹھتے ہیں جو یہ کمائی کرتے ہیں کیا بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد آخرت میں اس دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا حساب دینا ہے اور ایسے لوگ جو اپنی زندگی میں لوگوں کے حقوق پامال کرتے رہے ہیں ‘حقوق غصب کرتے رہے ہیں کیا ان کا حساب نہ ہو گا؟معاملہ اگر صرف موت کا ہوتا تو پھر تو مزے تھے کہ بس مر گئے جو کیا سو کیا مگر نہیں میرے مسلمان بھائیو اور بہنو ہم سب کو ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہو گا اور وہاں نہ رشوت چلے گی اور نہ سفارش ‘نہ کسی کی رشتہ داری کام آئے گی اور نہ کوئی عہدہ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا ۔جو کھا لیا وہ ضائع ہو گیا جو بچ گیا وہ تو مرنے کے بعد وارثان ناحق ہے ۔بندے کا کیا ہے صرف وہ اعمال جو اس نے اپنی زندگی میں کیے اور اللہ کے راستہ میں خرچ کیا ہوا مال اگر اعمال اچھے ہوئے اور رزق حالال کمایا اور اللہ کے راستے میں خرچ کیا تو اللہ کے فضل سے بری ہو جائے گا بصورت دیگر بہت برا ٹھکانہ ہے میرے مسلمان بھائیو آپ ذرا اس بات پر غور کریں کہ اگر آپ کے سامنے کسی بھی حلال چیز ایگ دیگ پکی ہوئی ہو اور مجمہ بیٹھا ہوا ہو کہ اب ہم کھائیں گے اور کوئی آدمی آکر اس میں سب لوگوں کو دکھا کر کتے کا صرف ایک بال اس میں ڈال دے تو کیا اس مجلس میں بیٹھا ایک شخص بھی اس دیگ میں سے کھانا پسند کریگا ، یقیناًہر گز نہیں تو پھر میرے مسلمان بھائیو ہم کیوں حرام کمائی کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں ،آج ہمارے معاشرے میں کیوں افرا تفری ہے کیوں ہماری اولادیں نافرمان ہیں ذرا سوچیں تو سہی کیا یہ حرام کمائی کا اثر تو نہیں ہے ؟میرے بھائیو اپنے سے کم حیثیت والے لوگوں کو دیکھا کریں اوپر والوں کو نہ دیکھا کریں تاکہ ہمارے اندر حرص پیدا نہ ہو کاروں اور کوٹھیوں کا لالچ پیدا نہ ہو جس کہ بناء پر حرام کمائی کا چسکا پڑتا ہے ۔ہمارے دفاتر میں جو بھی ملازم ہے یقیناًوہ پڑھ لکھ کر بھرتی ہوتا ہے اور کم از کم میٹرک تو ضرور ہوتا ہے تو کیا ان دفاتر میں کام کرنے والے جو رشوت لیتے ہیں خوا ہ وہ چھوٹا ملازم ہے یا بڑا اس نے یہ حدیث شریف نہیں پڑھی کہ ’’رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ‘‘اور یقیناًپڑھی ہو گی کیونکہ یہ اسلامیات کے حساب میں شامل ہیں تو کیا ہم صرف اس لئے پڑھتے ہیں کہ امتحان دینا ہے اور پاس ہونا ہے ۔میرے مسلمان بھائیو اور بہنو آئیں گزرے ہوئے کل کی معافی مانگیں اور آنے والے کل کیلئے تیاری کریں یہ رمضان شریف رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور اللہ تعالی کی رحمت خوب جوش میں ہے آئیں گڑگڑا کر عاجزی اور انکساری سے سچے دل سے اعمال بد کی معافی مانگیں اور آئیندہ کیلئے سچی توبہ کریں بے شک اللہ تعالی غفور و رحیم ہے تو بہ قبول کرنے والا ہے تاکہ کل قیامت کے دن تمام قوموں کے ساتھ ہم مسلمان بھی اللہ کے حضور پیش ہوں تو وہاں شرمندگی اور پچھتاوا نہ ہو کیونکہ وہاں یہ دونوں کام نہیں آئیں گے وہاں تو جھوٹے شہادتی ‘سفارش اور رشوت کام نہ آئے گی کیونکہ وہ بہت بڑی عدالت ہے اور کیا مجال کہ کسی کا جھوٹ چلے کیونکہ وہاں اس قادر مطلق کے حکم سے انسان کے اپنے اعضا ء گواہی دیں گے اور وہاں وقت گزاری کیلئے تاریخ بھی نہیں ملے گی کیونکہ وہاں وکیل اور منشی نہیں ہونگے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال بد سے رکنے اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق عنائیت فرمائے ۔آمین{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں