انسانی فطرت بہت سارے خیالات،خواہشات،احساسات اور جذبات کا ایک مرکب ہے۔ یہ تمام عناصر انسانی ذوق کو ہمہ وقت اپنی طرف متوجہ رکھے ہوئے ہیں۔ تمام انسان پیدائشی طور پر عموماً ایک جیسی فطرت کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مختلف حالات زندگی کے باعث مختلف انسانوں کی زندگی میں مختلف بدلاؤ آتے ہیں جوکہ مثبت یا منفی ہوسکتے ہیں۔اس کا انحصار انسانی فطرت کو بدلنے والے اسباب پرہوتا ہے جو وقتی طور پر یا شاید مستقل طور پر اسے بدل دیتے ہیں۔کامیابی انسانی فطرت میں موجود تمام عناصر میں سے ایک اہم عنصر ہے۔ یقیناًہر شخص کامیابی کی خواہش رکھتا ہے اور ا س کے حصول کے لیے ان تھک کوششوں میں مشغول رہتا ہے ۔پس اگر میں یہ کہوں کے تمام عاقل و بالغ افراد کی فطرت کامیابی پر یکجا ہوتی ہے تو یہ ہر گز غلط نہ ہوگا۔موجودہ وقت میں کامیابی کے حقیقی معنوں سے آشنائی کم ہوچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فقط ایک پرآسائش زندگی گزارنے کو کامیابی سمجھاجاتا ہے جوکہ محض ایک مغالطہ ہے۔ہم زندگی کے حقیقی مقصد کو بھول چکے ہیں اور آج اپنی ذلت رسوائی کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔امت مسلمہ کے ہر فرد کے فلاح اسلام میں ہے۔یقینااسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔دین حق عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ معاشی فکر کرنے پر بھی امادہ کرتا ہے اور یہی اسلام کی اصل خوبصورتی ہے۔
موجودہ وقت میں وطن عزیز بہت سارے مسائل سے دوچار ہے۔ہر طرف افراتفری کا عالم برپا دکھائی دیتا ہے ۔عوام ہو خواص مختلف مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔درحقیقت ان مسائل کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ قانون کی عملی طور پر عدم موجودگی ہے۔قانون صرف کتابوں تک محدود رکھا گیا ہے۔باحیثیت ایک قوم یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ۶۹سال سے آزاد قوم ابھی تک قطار بندی سے بھی آشنا نہیں ۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔میں ہر روز گلی محلوں میں بزرگ و جواں حضرات کو سیاست دانوں کے مخالف بولتے سنتا ہوں جوکہ کافی حد تک درست ہے لیکن !میں خود اگر دودھ میں ملاوٹ کروں ،میں خود اگر قسمیں اٹھا کر گراہک کو گھٹیا مال دوں، تو کیا اس کا سہرا بھی حکومت وقت یا دیگر سیاستدانوں کے سرجاتا ہے؟اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ہر ایک فرد واحد۔اسلام کی لائی ہوئی تعلیمات سے دوری ایسے حالات کی اصل وجہ ہے۔اگر ہم اپنے محور اسلام سے ایسے ہی دور رہے تو “فلاح”کا تصور بھی ممکن نہ رہے گا۔میں حیران ہوتا ہوں ان شخصیات کی ذہانت پر جوکسی تجزیاتی ٹیلی ویژن پروگرام میں وطن عزیز کو فلاح کی راہ دکھاتے ہوئے یورپ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔۱۴۰۰سال پیچھے جائیں ایک ایسی ریاست میں جہاں مساوات کا عالم یہ ہے کہ ایک عام شخص حاکم وقت سے تقسیم مال کے معمہ پر سوال و جواب کرتا ہے۔جہاں انصاف کی حد یہ ہے کہ عدالت خلیفہ وقت کو کٹہرے میں کھڑاکردیتی ہے ۔یہ وہ انصاف و مساوات اور دیگر اصول ہیں جنہیں یورپ ممالک میں اپنایا گیا ہے۔اپنا کھویا ہوا وقار،عزت،رفعت حاصل کرنے کے لیے ہمیں اسلام کو اپنانا ہوگا اور اپنی ہی تاریخ کو ایک معیار کے طور پر سامنے رکھنا ہوگااور مشعل راہ بنانا ہوگا۔آج کل سوشل میڈیا پر کچھ شر پسند عناصر دین اسلام کو دہشت گردی،ظلم و زیادتی جیسی دیگر برائیوں کی وجہ بتارہے ہیں ان حضرات کو تاریخ پڑھنے پر امادہ کروں گا ۔ جب ظلم و زیادتی کی انتہایہ تھی کہ بیٹی کو زندہ دوگورکردیا جاتا تھا تب اس تاریکی کو مٹانے والامذہب اسلام تھا۔ جب قتل و غارت ایک معمول تھا تب امن کا علم بردار اسلام تھا اور آج بھی ہے۔اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ تبدیلی آئے گی اور یہ تبدیلی ہمارے من پسند پارٹی یا سیاست دان لائیں گے تو یہ ہماری کم فہمی ہے۔۱۸کروڑ عوام پر حاکم چند لوگ کبھی بھی تبدیلی نہیں لاسکتے۔جب ایک میں نہیں بدلتا جب تک آپ نہیں بدلتے ۔میں آ پ سے ہوتا ہوا یہ تبدیلی کا سلسلہ “ہم”تک پہنچے گا تب حقیقی معنوں میں قوم بدلے گی اور اتحاد و تنظیم کے ساتھ کامیابی کے سفر پر گامزن ہوگی۔تمام تر ترقی یافتہ ممالک درحقیقت ان تعلیمات کو اپنائے ہوئے ہیں جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے ۔یہی ان کی وجہ فلاح ہے ملک پاکستان اور دیگر مت مسلمہ کو عقائد اسلام کے ساتھ ساتھ تعلیمات اسلام پر بھی عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔ہمارامطالبہ ریاست میں اسلامی قوانین کے نفوذ کو یقینی بنانے کا ہے۔ پھر انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ وطن عزیز ترفی یافتہ ممالک کی صف کا امام ہو۔پاکستان زندہ باد!{jcomments on}
97