118

دینی تعلیمات بیان کرنے کے لیے ریٹ/صاحبزادہ قاضی محمد عمران

ماہ ربیع النور کا چاند جوں ہی طلوع ہوتا ہے ہر مسلمان کے چہرے پر خوشی کے تاثرات نظرآنے لگتے ہیں۔گھروں میں ،مساجد میں،محلوں میں اور بازاروں میں رونقیں نظر آنے لگتی ہیں۔محافل ذکرو صلٰوۃ کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔الغرض ہر شخص اس جوش و جذبے سے سرشار نظر آتا ہے کہ میں سب سے بڑھ بارگاہ رسالت سے عشق اور عقیدت کا اظہار عملی انداز میں کروں،کیوں کہ اسی ماہ کی بارہ تاریخ کو باعث تخلیق کائنات کی ولادت باسعادت ہوئی۔آپ کا دنیا میں تشریف لانا صرف اہل اسلام ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کے لیے بارگاہ خداوندی سے نویدِ رحمت ہے۔خدا نے جب انسان کو تخلیق کیا اور اسے ارادہ و اختیار کی قوت عطاکی تو ساتھ ہی اسے حیات دنیوی کے لیے مکمل راہنمائی انبیا کرام کے ذریعے عطا فرمائی۔ اسی سلسلہ ہدایت کی تکمیل کے لیے نبی آخرالزمان ؐ تشریف لائے۔آپ کی تشریف آوری سے پانچ سو سال قبل تک انبیا کا سلسلہ منقطع رہا اور اس عرصہ کے دوران انسانیت نے جہل ، بدکاری، بے راہ روی اور بد تہذیبی کی معراج دیکھی۔ انسان کے روپ میں حیوان نظر آتے تھے سوائے چند اشراف کے تمام معاشرہ انسانی اقدار سے نابلد تھا۔ انسانیت کے اس تاریک ترین دور میں خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب کو عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے بھیجا اور یہ آپ کی تشریف آوری ہی تھی جس نے تمام دنیا کوانسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار سے روشناس کرایا۔جہاں عورتیں زندہ در گور ہوتی تھی انہیں حقوق عطا کیے مردوں کے برابر درجہ عطا فرمایا۔یتیموں، بیواؤں، کمزوروں اور غلاموں کی مدد اور خدمت کو محبت الٰہی اور قربت رسول ﷺ کا ذریعہ بنا دیا۔جہالت کی تمام رسومات کا خاتمہ کردیا۔عدل اور انصاف کی دولت عطا کی۔حسن خلق کی اعلیٰ ترین مثالیں عطا فرمائیں۔قیامت تک کے لیے آخری اور مکمل ہدایت کتاب و سنت کی صورت میں عطا فرمائی۔ایک ایسے دین کی تکمیل کی جو سراسر بھلائی اور خیر ہے،جو مکمل ضابطہ حیات ہے، جو عمل کے اعتبار سے دنیا کا آسان ترین دین ہے، جو انسان کو نیابت خداوندی کا جوہر عطا کرتا ہے،جو دنیا کو امن کا گہوارہ بناتا ہے،جو ماننے والوں کو عزت اور سربلندی عطا فرماتا ہے۔دین درحقیقت مصطفی کریم ﷺ کی اداؤں کا نام ہے۔اسلام آپ کے قول و فعل پر مشتمل ہے۔یہ تمام نعمتیں اور برکتیں ہر گز ممکن نہ تھی اگر ماہ ربیع النور کی بارہ تاریخ کو آمنہ علیہاالسلام کی گود میں نبیوں کا سردار تشریف نہ لاتا۔خدا کی اس نعمت عظمیٰ پر جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شکر کس انداز میں ادا کیا جائے؟ کیا فقط جھنڈے لہرا کر، جلوس نکال کر، بتیاں جلا کر، نعتیں پڑھ کر، شعلہ بیان خطابات سن کر اور سلام پڑھ کر؟یقیناًیہ تمام افعال اظہار عقیدت کے لیے لازم ہیں مگر ان سے شکر کی ادائیگی کا حق پورا نہیں ہوتا۔بحیثیت امتِ محمدیہ ہم پر لازم ہے کہ اس ماہ مقدس میں تجدید عہد وفا کریں۔جب ہم نے کلمہ پڑھ کر اسلام کی گواہی دی تو اس کے ساتھ ہی ہم پر اتباع مصطفی ﷺ واجب ہوگئی ۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ ظلم و ستم اور جہالت کے دور میں سید عالم ﷺ نے علم و امن کی روشنی عطا کی۔ یقیناًآج بھی انسانیت ظلم اور جہالت کی تاریکی میں سفر کر رہی ہے چنانچہ سید عالم ﷺ کی غلامی اور ان سے نسبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آج ہم اس ظلم و جبر اور جہالت و گمراہی کو دور کرنے کے لیے اسوہ رسول ﷺ کو اختیار کرلیں۔حسن خلق سے اپنے باطن کو سنواریں۔اپنے قرب و جوار میں بیواوں، یتیموں، کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کریں۔عورت کو وہی مقام اور عزت دیں جو سید عالم ﷺ نے مقرر فرمائی۔اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت اختیار نہ کریں۔خدا اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی جہاں کھلے عام مخالفت کی جارہی ہو اس کے خلاف عملی جہاد کریں۔حق کا ساتھ دیں اور ناحق کی مخالفت کریں۔قرآن کی تعلیمات کو اختیار کریں اور اس کی مخالفت تر ک کر دیں۔اپنے سیر ت و کردار کو اپنے نبی ﷺ کی سیرت کے مطابق ڈھال لیں ، تب ہی اس نعمت عظمیٰ کا شکرادا ہوسکے گا۔ یقیناًیہ مشکل کام ہے اور ہماری معاشرتی روش اس سے مطابقت نہیں رکھتی مگر اس حقیقت سے انکا ر بھی ممکن نہیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو ہرگز ولادت مصطفی ﷺ کا شکر ادا نہ ہوا۔یہ ماہ مقدس سرکار کل عالم ﷺ کی ذات سے وابستگی اور عہد وفا کے لیے ہمیں پکارتا ہے کہ ہم آج تہیہ کر لیں کہ خدا کے محبوب سے وفا کریں گے۔ ان کی تعلیمات کو اپنائیں گے،سیرت رسول ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں،تو یقین جانیئے کہ تمام دشمنان اسلام کی تباہی کا سامان ہوجائے گا۔ اسلام کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے لیے ایٹم بم کی نہیں بلکہ اسو ہ حسنہ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ آج کے دور میں نام نہاد عشاق مصطفیﷺ لوٹ مار سے بٹوری ہوئی، یتیموں اور بیواوں سے چھینی ہوئی دولت اور سود سے کمائے ہوئے پیسے سے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے محفل میلاد سجاتے ہیں۔ جس میں نعت خوان بھی اور مقررین بھی ریٹ مقرر کرکے تشریف لاتے ہیں۔کیا ایسے افراد کی ان محافل سے عشق محمد ﷺ کا اظہار ممکن ہے؟ایک سوال ان علما سے بھی جو دین کی تعلیمات بیان کرنے کے لیے ریٹ مقرر کرتے ہیں، فقط اتنا بتا دیں کی مصطفی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ و اہل بیتؓ نے خدا کی بات کرنے کا کیا معاو ضہ لیا تھا؟{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں