باطل کبھی نہ ٹھہرے گا یماں کے سامنے
تا حشر ہے مثال شہا دت حسین کی
زمانے کتنے بھی بدل جائیں رشتے تو نہیں بدلتے اور وہ بھی ایسا رشتہ جو زمین کا آسمان سے ہو جائے۔ خدانے جب رب کعبہ کی بازگشت پہ امام حسین ؑکو پکاراتو لبیک کہا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوفہ کو چلے۔تو وہاں ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے علی اصغر کی جوانی کو رلتے دیکھا۔ علی اکبر کی جوانی کولٹتے دیکھا۔ عباس علمدار کے بازؤں کو کٹتے ہوئے دیکھا۔ہم نے خیموں میں آگ لگتے ہو ئے دیکھی۔ بیبیوں کو بے ردا دیکھا۔آپ مجھے یہ بتا ئیے کہ ایسا کون سا ظلم تھا جو ہم نے وہاں نہ دیکھاسب کچھ تو دیکھا ہاں سب کچھ تو دیکھا پر پرچم اسلام کو سر نگوں ہوتے نہ دیکھا۔
آئیے اب آپ کو ایک رخ عصر حاضر کا حال دیکھاتا ہوں۔ہم مسجدوں میں جاتے ہوئے کئی بار سوچتے ہیں بلکہ بار بار سوچتے ہیں کیوں۔۔؟ کیوں کہ وہاں مرنے والے کی زبان پر بھی کلمہ ہے اور مارنے والے کی زبان پر بھی کلمہ ہے۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر تم اللہ کے دین کی پیروی کروگے تو ملک کافروں کے ہوں گے قانون تمہارا چلے گا۔حکومت ان کی ہو گی گھر تمہارے بھریں گے۔لیکن اگر تم نے اللہ کے دین کی نافرمانی کی تو ناکامی بھی تمہاری ہی ہوگی۔
اب مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں وہ مسلمان جو مغربی تہوار منانے میں تو سب سے آگے اوراگر واقعہ کربلا کا ذکر آئے خود تو ہیں ہی پیچھے جو کوئی اس پر دو حرف کہہ دے اسے دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔عاشور کی صبح علی اکبر کو امام حسین نے اذان دینے کو کہا۔انہوں نے اذان دی تو اعلان ہو گیا۔اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں لیکن اس کے باوجود لشکر یزید جنگ کرتا رہا۔ یہ کہہ کر کہ امام حسین نے بغاوت کی۔اگر اہل شعور یہ سمجھتے ہیں کہ امام نے بغاوت کی تو میں یہ کہوں گا امام نے بغاوت کی مگر کس چیز سے؟ باطل سے، بے نمازی کی زندگی سے، قرآن کی تعلیمات روکنے والو ں سے۔ ماں،بہن، بیٹیوں کے تقدس کو پامال کرنے والے معاشرے سے۔ ہاں بغاوت کی امام نے۔جس طرح کی زندگی سے امام نے بغاوت کی کیاآج ہم اس طرح کی بغاوت نہیں کر سکتے۔
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں
نمازعشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
146