ایک شخص نے جوانی میں اپنے کردار کا لوہا منوایا اور ہر فرد کی امیدوں پر پورا اترا اور 38 برس کی عمر میں 100 برس زندہ رہنے والے پاکباز افراد کی طرح دنیا میں خوشیوں کے دریا رواں کر کے ایسے روانہ ہوا کہ جیسے بس ابھی واپس آ جائے گا۔ جی ہاں اس مرد قلندر کا نام خلیق احمد راجہ ہے جو خطہ پوٹھوہار کا نام اس دھرتی کے کونے کونے میں روشن کر گیا صرف اپنے کردار کی بدولت۔ خلیق احمد راجہ سے میری ملاقات سیکرٹری یاسر محمود کی وساطت سے کافی برس قبل ہوئی اور یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ لبوں پر مسکراہٹ لیے یہ شخص ہر طرف خوشیوں کے ہوادار جھونکے بکھیرتا جاتا تھا۔ ایک طویل عرصہ ہم اس دوستی کے سفر میں یکجا رہے مگر گذشتہ پانچ یا چھ برس سے ہماری ملاقاتیں کم ہو چکی تھیں۔ اسی دوران فیس بک پر میں نے خلیق کی بیماری کی خبر سنی تو فوراً اس کے گھر چلا گیا۔ میں اپنی کتاب ”آبروئے ما“ اپنے ساتھ لے کر گیا۔ جس کمرے میں وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا وہاں نہیں جا سکا اور شیشے کے دروازے سے اشاروں سے ہم نے ملاقات کی۔ میں نے ان کے بڑے بھائی ماسٹر سرفراز کو کتاب دے کر بھیجا تو خلیق نے ان سے کہا کہ ”شاہد کا بہت خیال رکھنا بہت عرصے بعد میری ان سے ملاقات ہو رہی ہے۔“ اس ایک جملے نے مجھے یہ احساس دلایا کہ میں خلیق کے پاس نہ ہو کر بھی اس کے پاس بلکہ بالکل پاس ہی تھا۔ کیونکہ وہ دل سے پیار کرنے والا انسان تھا نہ کہ مادی دنیا کے دولت پرستوں کی طرح۔ خلیق کے جگری یار اور سائے کی طرح خلیق کے ساتھ رہنے والے دوست امتیاز مرتضیٰ بٹ نے خون کے آنسو بہاتے ہوئے بتایا کہ آپریشن سے ایک دن قبل اُسے ہسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔ جس صبح آپریشن ہونا تھا اس کی درمیانی رات میں اس کے پاس اس کے کمرے میں رہا۔ میری آنکھ لگ گئی مگر آدھی رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خلیق کو جائے نماز پر پایا اور میں نے دیکھا کہ وہ رب سے باتیں کر رہا تھا۔ خلیق کے بڑے بھائی سرفراز صاحب نے بتایا کہ آپریشن کے لیے انجکشن لگانے لگے تو ڈاکٹر سے کہا کہ مجھے مزید 15 منٹ دے دیں سورۃ رحمن مکمل کرلوں۔ آپریشن تھیٹر میں جانے سے قبل بلڈ پریشر چیک کیا جاتا ہے اور ایسے موقع پر ہر مریض کا بی پی ہائی ہو جایا کرتا ہے پریشانی کی وجہ سے۔ خلیق آپریشن سے قبل عام حالات کی طرح اپنے خوبصورت چہرے پر اسی طرح خوبصورت مسکراہٹ لیے ڈاکٹر سے بی پی چیک کروا رہا تھا تو ڈاکٹر حیران رہ گیا کہ اس کا بی پی 120/80 تھا جو ایک نارمل خوش و خرم انسان کا ہوتا ہے۔ اس بات سے یہ ظاہر ہوا کہ اس کو رب کی ذات اور موت پر اتنا پختہ یقین اور ایمان تھا کہ خود کو ہر اگلے معرکے لیے حاضر کرتا جا رہا تھا۔ ضلع راولپنڈی، تحصیل کہوٹہ اور گاؤں میرہ سنگال سے تعلق رکھنے والے راجہ نجابت حسین کے بیٹے خلیق احمد راجہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی دلیر خون سے تعلق رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ آٹھ ماہ قبل یعنی مئی 2017ء کو خلیق کے سر میں درد ہوا جو مزید بڑھتا گیا۔ بھائیوں کے کہنے پر ڈاکٹر کے پاس گئے تو معلوم ہواکہ خلیق کو برین ٹیومر ہے۔ یہ خبر تمام گھر والوں کے لیے قیامت صغرا سے کم نہ تھی۔ الغرض خلیق کو بھی بتا دیا گیا۔ جس کے ردعمل میں خلیق نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر ہو ہی نہیں سکتی چاہیے کوئی بیمار ہو یا تندرست۔ اب یہاں پر بھی خلیق کا رب کی ذات کی مصلحتوں پر پختہ یقین اور ایمان ظاہر ہو رہا ہے۔ خلیق احمد راجہ کا یہ ایمان کہ رب کے ہر کام میں انسان کے لیے کوئی بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈٹا رہا حسین کے انکار کی طرح۔ پہاڑ جتنا حوصلہ رکھنے والے خلیق کی ہمت کی داد دینا ہو گی کہ آپریشن کے فوراً بعد کہا کہ آپ سب لوگ والد صاحب کے پاس جائیں میں ٹھیک ہوں۔ اپنے باپ کا دوست خلیق اپنے والد راجہ نجابت حسین کو زرہ برابر تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ بچپن میں والدہ کے سائے سے محروم رہ جانے والا خلیق والد کے سائے میں سینکڑوں برس زندہ رہنا چاہتا تھا۔ لہٰذا ہوش آنے پر اتنے بڑے آپریشن کے بعد اسے اپنی ہوش نہ رہی بلکہ اسے صرف اس باپ کا خیال آیا کہ جس باپ کی موجودگی میں بیٹا بڑے سے بڑا کام کر گزرتا ہے۔ اپنے دوست اشتیاق سے کہا کہ جب میرے مرنے کے بعد سب لوگ مجھے دفن کر کے چلے جائیں تو تم دو گھنٹے تک میری قبر پر قرآن خوانی کرنا۔
اف میرے خدایا کیسا انسان تھا خلیق کہ جس کی ہر بات دل کو لگتی ہے۔ یاد رہے کہ خلیق احمد راجہ بلا مقابلہ ایم سی کلر سیداں کا کونسلر منتخب ہوا اور اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا۔ اتنے زیادہ اقدامات کوئی وزیر ہی کر سکتا ہے۔ یا کم از کم کوئی ایم این اے۔ بیماری کے ایام میں کسی دوست نے کہا کہ آپ انتہائی بیمار ہیں آپ کو چاہیے کہ اپنے گھر یا دفتر میں آنے والے مہمانوں پر خرچ کم کریں۔ اللہ نے آپ کو دو بیٹیوں سے نوازا ہے آپ ان کے مستقبل کے لیے بھی کچھ بچا لیں۔ خلیق احمد کے جواب میں پوری تاریخ قید ہو کر رہ گئی وہ یہ کہ ”میری بیٹیاں میرے مالک، سب کے رب اللہ کے سپرد ہیں وہی سب جہانوں کا پالنے والا ہے“ لہٰذا مجھے بچیوں کی فکر ہر گز نہیں۔ یہاں پر بھی رب کی ذات پر پختہ ایمان کی عکاسی ہو رہی ہے۔ خلیق بیماری کے 8 ماہ کے دوران انتہائی ثابت قدم رہا۔ اور ایک دن کہنے لگا کہ اللہ کا شکر ہے میں اس سارے مرحلے میں ثابت قدم رہا اور یہ سب میرے رب کا کمال ہے۔ ان کے بڑے بھائی سے مل کر مجھے یوں لگا کہ جیسے کوئی باپ اپنے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے سے محروم ہو گیا ہو حالانکہ اس دن میں جب میرہ سنگال کے گاؤں کے افراد سے ملا تو مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ جیسے یہ گاؤں ایک باپ سے محروم ہو گیا ہو۔ خلیق کے بھائی سرفراز صاحب نے بتایا کہ ہم سے بچھڑنے سے چند دن قبل وہ باتیں بھول جایا کرتے تھے۔ اکثر ایک یا دو باتوں کے بعد تیسری بات بھول جاتے تھے۔ دراصل خلیق نے ہمیشہ دوسروں کو محتاجیوں سے باہر نکالا لہٰذا وہ خود کسی کا محتاج نہ رہا۔ دوست ملنے آتے تو خود کو صحت مند ظاہر کرتا۔ اپنی بیماری سے ہار نہیں مانی اور آخر دم تک ثابت قدم رہا اور چہرے پر مسکراہٹوں کے گلدستے سجاتا رہا۔ خلیق احمد راجہ نے اپنی ساری زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دی۔ دوسروں کے مسائل حل کرتے کرتے مر کر امر ہو گیا۔ خلیق نے ہمیشہ اپنی زوجہ کو عزت دی اور اس کی ضروریات کا خیال رکھا مگر دولت کی حوس سے بچا رہا۔ اس سارے مرحلے میں خلیق کی زوجہ اور ہماری بہن انتہائی ثابت قدم ثابت ہوئی اور کامیاب رہی۔ آج خلیق کے بغیر وہ زندہ ہے مگر اپنی زندگی کے ساتھی سے محروم ہو گئی ہے۔ وفات سے چند دن قبل اپنی رفیق حیات سے کہنے لگا کہ اللہ آپ کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں عطا کرے آپ نے میرا بہت ساتھ دیا۔ ایسی حقیقت کا اعتراف بھی کوئی ظرف والا ہی کر سکتا ہے اور یہ سہرا خلیق راجہ کے سر جاتا ہے۔ معاملات زندگی اور معمولات زندگی میں انتہا درجے کا مکمل انسان خلیق راجہ جانے سے قبل ہر ملنے والے سے صلع کر کے گیا اور معافی کا طلبگار رہا۔ وفات کے تیسرے روز جب میں وہاں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ ہر طبقے سے لوگ وہاں آتے رہے اور ہر آنکھ اشک بار نظر آئی۔ جس طرح امتیاز مرتضیٰ بٹ خلیق کا انتہائی مخلص دوست تھا اسی طرح اس کا ایک دوست اخلاق کیانی بھی آج افسردہ ہے کہ دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ عزیز اس کے لیے خلیق تھا مگر آج وہ اس کے بغیر ہے۔ اس دن فیس بک پر میں نے اخلاق کیانی کے دکھ بھرے الفاظ پڑھے اور گھنٹوں سوچتا رہا۔ اخلاق کیانی کی بات کا لب لباب یہ تھا کہ آج وہ جہاں بھی ہے اور کل وہ جو بھی ہو گا، جہاں بھی ہو گا، خلیق کے بغیر ہو گا۔ مجھے اخلاق کیانی کی آواز میں آہیں اور سسکیاں سنائی دیں اور یہ خاموش آہیں اور سسکیاں طوفان کے آنے کا پتہ دے رہی ہوتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ خلیق راجہ کے دوستوں کو صبرِ جمیل عطا کرے کہ وہ ایک سچے اور مخلص دوست سے محروم ہو گئے ہیں۔ میرے بہت ہی پیارے دوست سیکرٹری یاسر نے مجھے بتایا کہ اخلاق کیانی اور امتیاز بٹ کے سب گھر والے خلیق راجہ سے بہت پیار کرتے تھے اور اس کو اپنے گھر کا فرد تصور کرتے تھے مگر آج وہ بھی اس کی یاد میں پُر نم ہیں۔ خلیق راجہ کے ماموں خلیق سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کی جدائی میں چور چور ہو چکے ہیں۔ اس دن مجھے گلے لگا کر خوب روئے اتنا روئے کہ ان کی دل کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ خلیق کے سب بھائی ماشااللہ انتہائی باکردار ہیں جن میں عتیق احمد، اعجاز احمد، وثیق احمد اور بڑے بھائی ماسٹر سرفراز احمد شامل ہیں۔ مگر سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ ”اب میں ساری زندگی خلیق احمد کو تلاش کرتا رہوں گا۔“ وہ یہ سب کہنے پر حق بجانب ہیں کہ اہل محلہ کا وارث ان سب کو چھوڑ کر وہاں چلا گیا کہ جہاں سے واپسی کا گمان بھی محال ہے۔ شاعر نے ایسے افراد کے لیے ہی کہا ہے کہ۔
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر دو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
والدہ کی جدائی کی وجہ سے خلیق احمد راجہ، اکثر افسردہ رہتا تھا۔ خلیق کی والدہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ انتہائی مہمان نواز ہواکرتی تھیں۔ خلیق کی والدہ شب جمعہ کو فوت ہوئیں اور ان کو بھی برین ٹیومر کا مرض تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پیار کرنے والی روحیں ایک دوسرے سے مل کر ہی دم لیتی ہیں۔ اور جہاں بات ہو ماں کی مامتا کی تو اس محبت اور اخلاص کی کیا ہی بات ہے۔ خلیق کو بھی برین ٹیومر ظاہر ہوا اور اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے چلتے چل دیئے۔ خلیق کی والدہ کا جنازہ بروز جمعہ 4 بجے ادا کیا گیا اور خلیق کی نماز جنازہ بھی بروز جمعہ 4 بجے ادا ہوئی۔ جاتے جاتے خلیق پھر نمبر لے گیا اور اپنی والدہ کے قدموں میں دفن ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے مگر جنت کا دروازہ اس وقت تک نہیں کھلے گا جب تک باپ راضی نہ ہو جائے۔ الحمد للہ خلیق سے خلیق کے والد گرامی انتہائی خوش تھے لہٰذا خلیق جنت کا شہزادہ ہو گا۔ انشاء اللہ خلیق بے شمار افراد کے روزگار کا ذریعہ بنا۔ معلوم ہوا کہ دوسروں کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتا تھا۔ ایک دفعہ ایک بچے کو مزدوری کرتے ہوئے دیکھا تو وجہ پوچھی کہ اتنی کم عمری میں آپ مزدوری کیوں کر رہے ہیں تو جواب میں بچے نے بتایا کہ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لیے کماتا ہوں اور پڑھتا بھی ہوں مگر آج کل پڑھائی کے لیے وقت نہیں ملتا۔ خلیق نے یہ سن کر اسے کام سے ہٹا کر تعلیم پر لگایا اور خود اس کے گھر والوں کا کفیل بنا۔ آج وہ بچہ اس معاشرے کا ایک کارآمد شہری بن چکا ہے اور ایم ایس سی فزکس کر کے ملک و قوم کے لیے مفید فرد کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں خلیق مرحوم انتہائی سخی، غریب پرور، انسانوں اور اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذخیرہ اندوزی اور ذخیرہ کاری سے میلوں دور رہنے والا اللہ کا بندہ ثابت ہوا۔ ہر طرف محبتیں بانٹنے والا خلیق احمد راجہ اتنا جلدی چلا جائے گا یہ معلوم نہ تھا۔ 24 گھنٹوں میں چار گھنٹے آرام کرتا تھا اور ہر وقت اہل علاقہ کے لیے روتا تھا۔ مشکل کی ہر گھڑی میں خلیق اپنوں اور غیروں کے لیے حاضر رہتا تھا۔ خلیق کے گھر والے بتاتے ہیں کہ ساری زندگی نماز فجر سے قبل جاگتا رہا اور رات گئے تک کام کرتا اور اہل علاقہ کی دعائیں لیتا۔ جس گھر سے کچھ کھا لیتا اس گھر کے لیے رزق کی کشادگی کی دعا کرتا۔ اور اکثر دوسروں کو یہ دعا دیا کرتا تھا کہ ”اللہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے“ نماز جنازہ کے دوران تقریباً 90 برس کے ایک بزرگ کی دھاڑیں مار کر رونے کی آواز پورے جم غفیر نے سنی جو کہہ رہا تھا کہ ”خلیق اب میرا اور میرے خاندان کا کیا بنے گا“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک پاکستان اور اہل علاقہ کا دست و بازو تھا کہ جو اَب نہیں رہا۔ اس دن خلیق کا ایک بہت ہی پیارا دوست مدثر احمد خالد جو میرا بھی دوست ہے بہت اداس اور بار بار رو رہا تھا کہ وہ بھی خلیق کے بغیر تن تنہا کھڑا تھا۔ ان سب دوستوں کے درمیان ہمارا ایک دوست سیکریٹری یاسر محمود خلیق کی ہر بات پر ضبط کے بندھن توڑتا ہوا پایا گیا۔ خلیق کے بچپن کے دنوں سے لے کر آج تک ہر بات کا گواہ اس کا دوست سیکریٹری یاسر خلیق کی وفات کے بعد بہت اداس رہنے لگا ہے۔ نہ جانے کیوں خلیق تم نے جانے میں جلدی کر دی؟ یاد رہے کہ جو لوگ دنیا والوں کو پسند ہوتے ہیں وہی لوگ خدا کے حضور پسندیدہ ہوا کرتے ہیbeٰذا اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو جلدی بلا لیا کرتا ہے۔ خلیق احمد امانت دار ایسا کہ کم عمری میں لوگوں کے کروڑوں روپوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتا اور حفاظت کے معاملے میں حق ادا کرتا۔ مستقل مزاجی اور درد دل رکھنے والا خلیق آج ہم میں موجود نہیں مگر وہ ہر اس جگہ موجود ہو گا جہاں اس کی ضرورت محسوس ہو گی۔ خلیق تیرے اور تیرے کردار کے کیا کہنے کہ آخری دنوں میں دوستوں کو بھی نہیں پہچان سکتا تھا مگر نماز کے اوقات کو ایک دن بھی نہ بھولا اور وقت پر نماز ادا کرتا رہا۔ وہ سورۃ رحمن جو خلیق نے ساری زندگی پڑھی وہی تلاوت خلیق نے دماغ کے آپریشن سے قبل ادا کی اور پھر جب وہ انتہائی لاغر ہوا اور بولنے کے قابل نہ رہا تو سورۃ رحمن کی ریکارڈنگ سنتا رہا۔ آپریشن کے بعد جب میں خلیق سے مل کر واپس آیا تو خلیق اپنے دوست سے بار بار کہتا رہا کہ امتیاز بٹ کسی دن شاہد جمیل سے ضرور ملوانا مجھے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ کاش مجھے خلیق کی اس خواہش کا پتہ چل جاتا تو میں خود حاضر ہو جاتا خلیق کے پاس۔ رب کی ذات نے خلیق احمد کو دو بیٹیوں سے نوازا۔ بڑی بیٹی مشال فاطمہ باپ کی جدائی میں سہمی ہوئی ہے خاموش سمندر کی طرح۔ اور چھوٹی بیٹی نے کیا کہنا ہے کہ جس نے ابھی لفظ ”باپ“ بھی نہیں سیکھا اور باپ کے سائے سے محروم ہو گئی۔ اس عظیم باپ کی عظیم بیٹیاں اپنے دور کی کامیاب ترین بیٹیاں ہوں گی مگر باپ کو گھر کے ہر کونے میں تلاش کرتی رہیں گی۔ خلیق کی نذر میرا اپنا ایک شعر ؎
ماں باپ کے دلوں کا گر احوال جان لو
مر کر بھی مر نہ پاؤ گے شاہدؔ یہ مان لو
خلیق کی زوجہ کا کہنا ہے کہ جس رب نے زندگی میں ملوایا وہی رب اگلے جہاں خلیق