شرف صحابیت نبوت کے بعد ایسا شرف ہے جس پہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے چنیدہ بندوں کو منتخب فرماتا ہے صحابہ کرام ؓتاریخی شخصیات نہیں بلکہ قرآنی شخصیات ہیں جن کی عدالت تواتر قرآنی سے ثابت ہے
ہم ان کو تاریخ کے پراگندہ اوراق میں نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے روشن صفحات میں تلاش کریں اسلام مخالف طبقات جو براہ راست اسلام پہ حملہ آور ہونے کی جرات نہیں رکھتے
وہ ان گواہان رسالت پہ تنقید کے چور دروازے سے تشکیک کی عمارت تعمیر کرتے ہیں آج بالخصوص میڈیا پہ ایسے لوگ نظر آرہے ہیں جن سے اس طرح کی تنقید برائے تشکیک سن کر سادہ لوح مسلمان بھی ان شخصیات کے حوالے سے بدگمانی کا شکار ہو جاتے
جن کی عدالت جن پہ رضا کے پروانے رب ابوبکر رض نے اتارے ہم معصومیت کا دعوی نہیں کرتے بلکہ محفوظ ہونے کا اصولی موقف رکھتے ہیں اس حوالے سے ناموس صحابہ و اھلبیت رض بل قریب دور میں اسمبلی میں پیش ہوا جو ہماری ملی سیاسی غفلت کی بناء ابھی تک منظور نہیں ہوا
جس کیلئے بہت ورکنگ بھی ہوئی ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء —634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔
اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہ ُ تعالیٰ عنہُ انبیا اوررسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔
عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
ابوبکر صدیق عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔
جب پیغمبر اسلام محمد مصطفیﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انھوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔
قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ بعد ازاں پیغمبر اسلام محمد مصطفٰیﷺ کی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبر اسلام ﷺ کے ہم رکاب رہے
۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں گرفتار ہوئے تو ابوبکر صدیقؓ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو پیغمبر اسلام نے وفات پائی اور اسی دن حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔
منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ابوبکر صدیق نے اسلامی قلمرو میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا، جا بجا لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔
فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد امام ابوبکر صدیق رَضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔
+
پیر 22 جمادی الاخری سنہ 13ھ کو تریسٹھ برس کی عمر میں خلیفہ اول ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے اور حضرت عمر بن خطاب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ان کے جانشین ہوئے۔
اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلیٰ و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی، محمد بن سائب کلبی، سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں
اور ان حضرات پر علما اسماء الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔
تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے اور حضرت ابوبکر صدیق کا خلیفہ بلافصل ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔