columns 242

حق و باطل

حق اور باطل اپنی اپنی جگہ کامل جامع نظام ہیں یہ ایک دوسرے کی شدید ترین ضد ہیں اور ابتدائے آفرنیش سے ایک دوسرے کی سخت مخالفت کی بنیاد پر قائم ہیں ایک کی موجودگی دوسرے کی عدم موجودگی کی دلیل ہے ایک کی اطاعت دوسرے کا انکار ہے اور ایک کی جیت دوسرے کی ہار ہے یہاں تک کہ حق کا وجود ہی باطل کو مٹا دینے کیلئے ہے مزید برآں حق اور باطل میں سے ہر ایک کو کسی بھی جسم یا خطہ ارض پر قیام کیلئے بلا شرکت غیرے کامل کنٹرول درکار ہوتا ہے اوریہ دونوں کسی بھی جگہ پر نہ صرف بیک وقت نافذ نہیں ہو سکتے بلکہ دونوں کسی بھی جسم یا خطہ ارض پر قیام کیلئے بالکل برابر جگہ بھی گھیرتے ہیں ایک کا انہدام اسی مقام پر دوسرے کے قیام کا اعلان عام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ ایمان والوں کا حامی و مددگار ہے وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور طاغوت کافروں کے حامی ومددگار ہیں جو انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں“”اگر اللہ لوگوں میں سے ایک گروہ کو دوسرے سے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور عبادت گاہیں اور مسجدیں سب ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا ذکر بکثرت کیا جاتا ہے“”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ کو اپنے نور کی تکمیل کے سوا ہر بات نامنظور ہے چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو“”اعلان کر دو حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا بلاشبہ اللہ زور آور اور زبردست ہے“اہل حق کا سرپرست اللہ ہے جبکہ اہل باطل غیراللہ کی زیر نگرانی پلتے ہیں ان غیر ہم خیال گروہوں کی ایک ہی معاشرے میں ساتھ ساتھ زندگیاں بسر کرنے کے باوجود دونوں کی سوچ سمجھ‘دوڈدھوپ‘طرز زندگی اور کامیابی و ناکامی کے امتیازی نشانات الگ الگ ہوتے ہیں اہل حق اللہ کا گروہ اور اہل باطل شیطان کا جتھہ قرار پاتے ہیں ”اللہ ان سے (اہل حق)راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں یہی تو اللہ کا گروہ ہے یاد رکھو بلاشبہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب رہنے والا ہے“ان (اہل باطل)پر شیطان مسلط ہو چکا ہے پس اس نے انہیں اللہ کے یاد بھلا دی ہے یہی تو شیطان کا جتھہ ہے یاد رکھوبلاشبہ شیطان کا جتھہ ہی ناکام رہنے والا ہے حق کی چربہ سازی میں باطل کا نظام بھی تین ستونوں پر استوار ہوتا ہے سیاسی و عسکری‘معاشی اور فکری اور روحانی تاریخ عالم گواہ ہے کہ باطل‘حق کو معاشرے سے رفتہ رفتہ خارج کرکے ان تینوں ستونوں کو ترقی دیتا جاتا ہے اور ان کی مشترکہ طاقت کو بے انتہا بلندی پر پہنچادیتا ہے اس دوران حق کو باطل کے ساتھ شدید خلط ملط کر کے اس کا حلیہ ہی بگاڑدیا جاتا ہے شیطانی زہر کے ڈسے ہوئے مد ہوش لوگ پیمانہ حق کو بھلا کر جلد ہی اس کی کھوج کو بھی غیرضروری قرار دے دیتے ہیں نتیجتا ًمعاشرے میں اسلام اجنبی و غیر مقبول بن جاتا ہے ماضی کے اہل حق حال کے اہل باطل بن جاتے ہیں اور نیابت الٰہی کیلئے برپا کیا گیا گروہ شرف انسانی نہ صرف اللہ کے احکامات کا صریح نافرمان بن جاتا ہے بلکہ حق و ایمان کی جڑ کاٹنے کیلئے شیطان کا قابل اعتماد آلہ کار بھی بن جاتا ہے چنانچہ آفاقی قوانین عروج و فلاح کے وارث اہل حق معاشرے میں موذی جانور سے بھی زیادہ قابل نفرت و کراہت تصور کئے جاتے ہیں حق کی اطاعت کرنا‘ہنسی اور گالی سے گزر کر گولی کھانے کے مترادف بن جاتا ہے اور پھر روئے ارض پر ان کیلئے کوئی جائے امان نہیں بچتی اس طرح حق کو بے دخل کر کے باطل اسی کے عالی مقام پر قبضہ جما لیتا ہے قران گواہ ہے کہ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب بام عروج پر پہنچی قوموں میں فکر‘علم وعمل کی گنگا الٹی بہہ نکلتی ہے اور نام نہاد ترقی وجدیدیت کا جادو سر چڑھ کر بول پڑتا ہے عین اسی وقت طاغونی قوت اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر کیلئے آخری انتہائی قدم اٹھا کر عذاب الہی کودعوت دے دیتی ہے اللہ نے پورے قرآن میں دو مرتبہ ان تینوں طاقتوں کی غیر معمولی شخصی نشاندہی فرما کر شیطانی مثلث کا اس شان سے انکشاف فرمایا ہے کہ اسی جیسی سرگانہ شخصی نشاندہی کی کوئی اور نظیر پورے کلام اللہ میں موجود نہیں ہے ”ہلاک کیا ہم نے قارون اور فرعون اور ہامان کو“”بلاشبہ ہم نے موسی ؑکو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا“قرآن محض تاریخی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ان گنت دیگر صفات کے علاوہ بیک وقت تاریخی علمی فکری و انقلابی کلام ہے جس سے ہر دور کا حاجت مند قاری کامل رہنمائی حاصل کرتا ہے اس آفاقی تناظر میں فرعون‘قارون اور ہامان تاریخی شخصیات ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی و عسکری‘معاشی اور فکری و روحانی طاقتوں کی شخصی علامت کی حیثیت میں بھی بے نقاب ہو جاتے آج کے نام نہادترقی یافتہ دور میں بھی ہو بہو انہی تینوں زمانہ پتھر کے ستونوں کا نظام پوری سج دھج سے دوبارہ قائم ہو چکا ہے سیاسی حاکم ریاست‘عسکری لگام اپنے ہاتھوں میں رکھتا ہے بیشتر ممالک کے صدور فرعون کی طرح سپریم کمانڈر آف آرمڈ فورسز بھی ہوتا ہے قارونی معیشت کا قلمدان پہلے کی نسبت آج اور زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ہامانی فکری روحانی طاقت کل کی نسبت آج غلامانہ نظام تعلیم‘بے ہنگم میڈیا‘عجوبہ بیانیہ سازی اور بے لگام سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت قیامت خیز مقام پا چکی ہے عصر حاضر میں کرہ ارض پر ایک طائرانہ نگاہ اور عالم اسلام پر دردمندانہ نگاہ ڈالنے سے یہ رازفاش ہو جاتا ہے کہ شیطانی قوت الہی تینوں ستونوں کی مشترکہ طاقت کو ترقی دے کر بام عروج پر پہنچاچکی ہے اور دکھوں کی ماری عالمگیر انسانیت پراب تیسری جنگ عظیم کے بھیانک عذاب کا عنقریب نزول نوشہ دیوار دکھائی دے رہا ہے مزید برآں قدیم منصوبہ خداوندی کے مطابق ان فتنوں اور حشرسامانیوں کی آخری نوک پلک سنواتے ہی سب سے بڑا شیطانی ہرکارہ یعنی مسیح دجال انسانی صورت میں ظاہر ہو کر عالمگیرانسانیت کو دفعتاََاپنی لپیٹ میں جکڑ لے گا جس کے دعویٰ نبوت و دعویٰ ربوبیت ہو گی دجال سب سے پہلے دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے پھر وہ دعویٰ کرے گا کہ میں تمہارا رب ہوں شیطانی نظام ایک جامع اور مربوط تکونی ڈھانچے پر مشتمل ہے اور روز ازل سے حق کے خلاف انتہائی متحرک ہے شیطانی ڈھانچے کا پہلا کونہ شیطان لعین خود ہو ہے جس نے نسل انسانی کو آفاقی ہدایت و ابدی فلاح کے راستے سے بھٹکا کر اپنی بندگی کے راستے جہنم کا ایندھن بنا ڈالنے کا پکا ارادہ کر رکھا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں