پروفیسر محمد حسین
دھیان نہ ہو تو انسان یہ جانے بغیر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے کہ اس سے کوئی غلط کام سرزد ہو رہا ہے اسی خیال کے پیش نظر چند باتیں توجہ طلب ہیں جو چیزیں کسی شخص کی ذاتی ملکیت بھی ہوتی ہیں ان کے بارے میں تو تھوڑا بہت احساس لوگوں کو ہو جاتا ہے لیکن جو چیزیں سرکاری املاک کہلاتی ہیں ان کے بارے میں مال مفت دل بے رحم کی مثل صادق آتی ہے ان پر قبضہ کر لینا ان کو خلاف قانون بے دردی سے استعمال کرنا ایسی عام بات ہو گئی ہے جس پر ہر کوئی چشم پوشی کرتا ہے حالانکہ سرکاری اشیاء بر سر اقتدار افراد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کاناجائز استعمال صرف کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ سارے عوام کی حق تلفی ہے اور یہ حقوق العباد کی اس قدر نفی ہے کہ اس میں اگر کوئی حق تلفی ہو جائے تو اس گناہ کی معافی انتہائی مشکل ہے حقو ق العباد کے گناہ صرف توبہ استغفار کرنے سے معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کی معافی کے لیے اس شخص کا معاف کرنا ضروری ہے جس کا حق پامال کیا گیا ہو اب اگر وہ شخص ایک ہو تو معافی مانگی جا سکتی ہے لیکن سرکاری املاک کے حقدار چونکہ تمام عوام ہیں اس لیے اگر کبھی ندامت اور توبہ کی توفیق ہو توا آدمی کس کس سے معافی مانگتا پھرے گا ؟یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے ذرا سوچئیے اور ان چند تصرفات پر غور فرمائیے جو ہمارے معاشرے میں بری طرح پھیلے ہوئے ہیں سرکاری زمینوں پر تجاوزات اسی کی قسم کی غاصبانہ کاروائی ہے جس کا تعلق حقو ق العباد کے اس سنگین شعبے سے ہے ہمارے ہاں اس مسلے پر بحث ہوتی ہے کہ جس شخص کامکان سڑک کنارے واقع ہو وہ اپنی کھڑکی پر سائبان لگا سکتاہے یا نہیں؟ اور اگر لگا سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کتنا لمبا اور کتنا چوڑا؟حالانکہ سائبان سے زمین کے کسی حصے پر قبضہ نہیں ہوتا بلکہ فضا کا بہت تھوڑا سا حصہ استعمال ہمارے معاشرے میں تجاوزات کوئی قابل ذکر عیب نہیں رہے جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنے مکان یا دکان کے گرد یا پوری کی پوری سرکاری زمین پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتا ہے بلکہ ہمارے گرد و پیش میں جس طرح یہ تجاوزات پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک نہیں کئی کئی گناہ بیک وقت موجود ہیں اول تو عوامی زمین پر ناجائز قبضہ ہی بڑا سنگین گناہ ہے دوسرا یہ کہ عموماً ان تجاوزات سے راستہ چلنے والوں کو بڑی تکلیف اور پریشانی ہوتی ہے اور راہ گیروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا ایک مشکل گناہ ہے جس پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے تیسرا یہ کہ ہمارے ماحول میں یہ تجاوزات رشوت خوری کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے کیونکہ انہیں باقی رکھنے کے لیے متعلقہ اہلکار کو بھتہ دینا پڑتا ہے اور یہ بھتہ ایک دفعہ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ہفتہ وار یا ماہانہ تنخواہ کی طرح اس کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے اہلکار دل سے یہی چاہتے ہیں کہ تجاوزات ختم نہ ہوں تاکہ ان کی آمدنی کا یہ ذریعہ بند نہ ہونے پائے لہذا ان کو اپنے فرائض سے غافل کرنے بلکہ فرائض کے برعکس کام کرنے کا گناہ بھی اس میں شامل ہو تو بعید نہیں ہمارے ملک میں یہ بھی عام رواج ہو گیا ہے کہ جلسوں اور تقریبات کے لیے چلتی ہوئی سڑک توڑ کر شامیانے اور قناتیں لگائی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں آنے جانے والی گاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ٹریفک کے نظام میں بعض اوقات شدید خلل واقع ہو جاتا ہے یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص نما ز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں اور احادیث میں اس بات کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی نمازی کے سامنے سے نہ گزرے لیکن ساتھ ہی شریعت نے نماز پڑھنے والے کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ بیچوں بیچ یا اس کے آخری سرے پر نماز کے لیے کھڑے ہو جانا اس صورت میں جائز نہیں جب سامنے لوگوں کے گزرنے کی جگہ اور نماز شروع کرنے کی وجہ سے انہیں لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا ہو لہذا حکم یہ دیا گیا ہے کہ ایسی جگہ نماز پڑھو جہاں یا تو سامنے کو ئی ستون و غیرہ ہو جس کے پیچھے لوگ گزر سکیں یا سامنے نمازیوں ہی کی صفیں ہوں غور فرمائیے کہ مسجدیں عموماً بہت بڑی نہیں ہوتیں اور اگر کسی شخص کو چکر کاٹ کر نکلنا پڑے توا س کے ایک دو منٹ سے زیادہ خرچ نہیں ہوتے لیکن شریعت نے اس ایک دو منٹ کی تکلیف یا تاخیر کو بھی گوارہ نہیں رکھا اور نمازی کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوں کو اس عمومی تکلیف سے بھی بچائے ورنہ گناہ گار وہ خود ہو گا جب شریعت کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ کوئی شخص ہماری وجہ سے اس معمولی تکلیف میں مبتلا ہو تو سڑک کو بالکل بند کرکے لوگوں دور کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا کس طرح ناجائز ہو سکتا ہے ؟بالخصوص آج کی مصروف زندگی میں اگر کسی شخص کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں چند منٹ کی تاخیر بھی ہو جائے تو بعض و اوقات اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے کسی بیمار کو ہسپتال پہنچانا ہو یا کسی بیمار کے لیے دوا لے جانی ہو کسی مسافر نے ریلوے سٹیشن یا ہوائی اڈے پر پہنچنا ہو اور ہمارے جلسے یا تقریب کی وجہ سے اسے پانچ یا دس منٹ کی تاخیر تو کہنے کو یہ تاخیر پانچ دس منٹ کی ہے لیکن اس تاخیر کے نتیجے میں بیمار رخصت بھی ہو سکتا ہے مسافر اپنے سفر سے بالکل محروم بھی ہو سکتا ہے اور جن جن لوگوں کو اس طرح کا نقصان پہنچاہو ہمیں نہ ان کا نام معلوم ہے نہ پتہ اور نہ نقصان کی نوعیت لہذا گر اس گناہ کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو شاید ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔
173