124

جہیز

پروفیسر محمد حسین
اسلام ایک آفاقی دین ہے جس نے دنیا میں آنے والے انسان کے لئے زندگی گزارنے کا ایک مکمل لائحہ عمل دیا ہے اور تمام جانداروں کے حقوق متعین کئے ہیں اسلام نے مرد عورت دونوں کے حقوق کو الگ الگ واضع طور پر بیان کردیا ہے اسلام وہ دین ہے جس نے عورت کو اس کے تمام حقوق کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا ہے اسلام کے ابتدائی دور میں یونان جس کو تہذیب وتمدن کا منبع تصور کیا جاتا تھا وہاں سامان تجارت کی مانند عورتیں فروخت کی جاتی تھیں اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسوم ورواج کو ختم کر کے عورتوں کو معاشرے میں ایک باعزت مقام عطاکیا اور انہیں وراثت کا حقدار قرار دے کر اس کی کامل وضاحت کر دی غیر مسلموں میں اب بھی عورتوں کو وراثت کا حقدار نہیں سمجھا جاتا اسی کے پیش نظر باپ اپنی بیٹی کی شادی میں اپنی استطاعت کے بقدر ضروریات زندگی کا سامان تیار کر کے جہیز کی صورت میں دیتا ہے یہاں تک کہ یہ جہیز والی صورت ہر شادی کے لئے لازمی صورت اختیار کر گئی ہے برصغیر میں ہندومسلم باہمی اختلاط کی وجہ سے جہیز کی وباء مسلمانوں میں بھی سرایت کر گئی اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ حقوق کو بھلا کر مسلمان جہیز کی لعنت میں گرفتار ہوگئے اور جہیز کے نام پر مسلم خواتین کا استحصال کیا جانے لگا نیک سیرت بچیوں کی ایک بڑی تعداد ہر روز جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھتی ہے متاع عیش کے طلبگار بھکاریوں نے نہ جانے کتنی مسلم بہنوں کو نذر آتش کیا ہے اخبارات کی سرخیاں جہیز کی بھینٹ پر چڑھی ہوئی معصوم لڑکیوں کے خون سے ہرروز رنگی ہوئی ہوتی ہیں دور حاضر میں جہیز مسلم معاشرے کے لئے وہ ناسور بن چکاہے جس کی گرفت سے خلاصی ممکن نظرنہیں آتی بلکہ یوں کہا جائے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے اور اس لعنت سے خود کوآزاد نہیں کرانا چاہتا اسلام نے جس قدر نکاح کو آسان بنایا تھا دولت کو معبود کا درجہ دینے والوں نے اتنا ہی مشکل بنادیا اقبال نے جنہیں شاہین سمجھا تھا آج کا سۂ گدائی لئے بنت حوا کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاکر دین مستقیم کے قلعے کو مسمار کرنے کے درپے ہیں جس مقدس رشتے کے ذریعے ایک صالح معاشرے کا قیام ممکن ہے اس کی ابتدا احکام اسلام کو یکسر پس پشت ڈال کر کی جاتی ہے حد تویہ ہے کہ اگر کوئی لوگ اس بری رسم کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کی شادی میں طریقہ نبویؐ کو اختیار کرتے ہیں تو مادیت کے پرستاردین اسلام کی دھجیاں اڑانے والے الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں رسول اکرم ؐنے فرمایا سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے زیادہ آسانی ہو اسلام نے نکاح کو بہت ہی آسان بنایا ہے جب مسلمان شریعت مطہرہ پر قائم تھے اور نکاح طریقہ نبوی ؐپر ہوتا تھا توزیادتی کی لعنت ناپید تھی روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں میں سب سے زیادہ پاکباز مسلم معاشرہ تھا مگر افسوس کہ جب سے جہیز جیسی لعنت معاشرہ میں آئی ہے اور نکاح دنیا کا مشکل ترین کام بن گیا ہے تب سے زیادتی کی وباء عام ہوگئی ہے غربت وافلاس کی زنجیروں میں قید ایک باپ جب بر وقت اپنی جوان بیٹی کو نکاح کے مقدس رشتے میں باندھنے سے عاجزآجاتا ہے تو یہ ظالم معاشرہ ہر طرح کی الزام تراشیاں شروع کردیتا ہے کبھی لڑکی کو منحوس قرار دے دیتا ہے اور کبھی اس پر شناساکے ساتھ کے ساتھ ملنے کا بہتان لگایا جاتاہے اس کے نتیجہ میں حواکی پاکباز بیٹی کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ گناہوں کے دلدل میں دھنسی چلی جاتی ہے آج مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد جنسی بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے ہر طرح کی برائیاں سماج
میں جنم لے رہی ہیں بروقت نکاح کے مقدس رشتے میں نہ بندھنے کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کا گھر سے فرار ہو کر شادی کرنے کی رسم عروج پر اور معمول بن چکی ہے وہ مسلم قوم جس کے شب وروز کا ہر ایک عمل زبان کا ہر ایک قول اور جس کی زندگی کا ہر معمول سنت رسول ؐکے سانچے
میں ڈھلا ہوا تھا معاملات سے لے کر عبادت تک اور اخلاق وعادات سے لے کر معاشرے تک ہر شعبہ میں جن کی زندگی رسول اکرمؐ کی اتباع کی نمونہ تھی وہ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے اور اس طرح کے تمام طبعی امور میں بھی نہ صرف سنتوںؐ کا خیال رکھتے تھے بلکہ مکمل پابندی کے ساتھ ان پر عمل پیراتھے وہ آج جا ہلانہ رسم ورواج کے گرویدہ بن چکے ہیں سنت نبوی کو یکسر فراموش کر چکے ہیں جہیز جیسی لعنت کو اپنی زندگی کا اہم حصہ نبا چکے ہیں اور پھر بھی عشق ومحبت کا دم بھرتے ہیں اور خود کو عاشق رسول ؐاور محسن انسانیت کا گرویدہ سمجھتے ہیں اتنباع رسول ؐکے بغیر عشق نبی ؐکا دم بھرنا عشق وعبدیت کی توہین اور منافقت نہیں تواور کیا ہے ذراسوچئے قومیں اور تہذیبیں اپنے تشخص اور امتیازی تعلیمات سے زندہ رہتی ہیں اور جب کوئی قوم اپنا تشخص کھو بیٹھتی ہے تو اسے ماضی کا حصہ بننے میں کوئی دیر نہیں لگتی یہ کونساعشق رسولؐہے کہ صنف نازک کو خودکشی پر مجبور کر کے سکون محسوس کیا جائے آج ہمارے وطن پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جہیز کی لعنت عام ہے اور ہر روز کسی نہ کسی بنت حواکے جلنے ‘گولی مارنے اور زہر دے کر ہلاکت کی خبریں آتی ہیں یہی عشق رسول ؐہے کہ وہ نبیؐ جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کے امتی آج امت کی بیٹیوں کو جہیزکے نام پر زندہ درگو کر رہے ہیں خدارا غریب کی آہ نہ لیں جہیز کی رسم کو ختم کریں یہ اسلامی شعار نہیں ہے یہ محض ہندوانہ رسم ہے حدیث پاک ہے یعنی جس نے کسی قوم کی مشعابت اختیار کی گویا وہ اسی میں سے ہے آج اگر ہم نے جہیز جیسی لعنت کا قلع قمع نہ کیا تو کل بروز قیامت ہمارا حشر بھی ان فرعونیوں کے ہمراہ ہوگا جنہوں نے اس لعنت کی بنیاد ڈالی اللہ ہمیں اس لعنت سے محفوظ رکھے (آمین)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں