ساجد محمود
استاد اس شمع کی مانند ہے جو خود تو جلتی ہے مگر دوسروں کو روشن رکھتی ہے قارئین اکرام مہذب دنیا کے عظیم اور مقدس پیشوں میں استاد کا نام سرفہرست ہے کسی بھی انسان کی کامیابی وکامرانی کے پیچھے ایک قابل اور محنتی استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں آج اسی مناسبت سے تعلیمی شعبہ اور درس وتدریس سے منسلک علمی و سماجی شخصیت ماسٹر راشد محمود مرحوم کی زندگی اور بحثیت معلم انہوں نے اپنی مختصر زندگی اور درس وتدرس کے لیے وقف کی اسکو زیربحث لانا مقصود ہے ماسٹر راشد محمود مرحوم 10 دسمبر 1974 کو ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی خاص میں پیدا ہوئے والد محترم کا نام ماسٹر روف حسین تھا جو انتہائی ملنساراور علمی ومذہبی شخصیت کے حامل نفیس انسان تھے انہیں بھی ہم سے بچھڑے 9 سال بیت گئے جبکہ انکے بڑے بھائی ماسٹر توصیف احمد بھی بطور معلم گورنمنٹ بھکڑال ہائی سکول میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں اور فروغ علم کے لیے کوشاں ہیں راشد محمود مرحوم نے مڈل تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول اراضی خاص سے حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول بھکڑال سے امتیازی نمبر لے کر پاس کیا پھر پی ٹی سی یعنی پرائمری سکول ٹیچر کا کورس مکمل کیا اور مزید حصول علم کا سفر جاری رکھا مزید براں 2002 میں پرائمری سکول چھپری اکو میں بطور پرائمری سکول ٹیچر آپکی تعیناتی عمل میں آئی پھر 2009 ہوم اسٹیشن گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اراضی خاص سکول میں تدریسی فرائض سرانجام دینا شروع کیے اور دوران تدریس آپ نے بی اے بی ایڈ اور ایم اے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی مزید براں تعلیمی قابلیت کی بنا پر ترقی پاکر 10 مارچ 2021 کو گورنمنٹ ہائی سکول بھکڑال میں تعینات ہوئے اسی دوران آپکو بخار ہوا جس سے رفتہ رفتہ طبعیت ناساز ہوگئی لیکن انہوں نے اپنی بیماری کے دوران اور وفات سے محض دو روز قبل جماعت ششم کا پورے سال کا ٹائم ٹیبل خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیا جس سے انکی علم کیساتھ گہری وابستگی اور لگاؤ کا تاثر ملتا ہے تاہم وہ اسی ناسازی طبعیت کی کشمکش میں 24 اگست کی شام آپکو کمپلیکس ہسپتال اسلام آباد منتقل کردیا گیا آپکا سٹی اسکین جاری تھا کہ اسی دوران آپکی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی آپکی وفات کی خبر سن کر علاقے میں ہرسو غم کا عالم تھا اور ہر آنکھ اشکبار اور لواحقین غم سے نڈھال تھے آپکے ساتھی اساتذہ بھی آپکی اچانک وفات کی خبر سن کر آبدیدہ تھے 25 دسمبر کو آہوں اور سسکیوں کے درمیان آپکو آباؤی گاؤں اراضی خاص کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا متوفی بیوہ 2بیٹوں اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑ کر انہیں داغ مفارقت دے گئے انکے قریبی ساتھی اور استاد ماسٹر محمد سیلمان نے پنڈی پوسٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ماسٹر راشد محمود مرحوم قابل تقلید زندگی گزار کر قابل رشک موت کیساتھ جنت کی راہوں کے مسافر بن گئے ان کا کہنا تھا کہ مرحوم تعلیمی فرائض کی انجام دہی کیساتھ ساتھ زیر تعلیم غریب طلبا کی فلاح وبہبود کا خود بھی خصوصی خیال رکھتے اور ہمیں بھی ہمیشہ ضرورت مند طلبا کی ضروریات پوری کرنے کی تلقین کرتے جب نیا سال شروع ہوتا تو وہ اپنی مالی استطاعت کیمطابق اور مخیرحضرات کے مالی تعاون سے مستحق بچوں کیلیے کاپیوں اور یونیفارم خرید کر انہیں دیتے ماسٹر محمد سیلمان کا مزید کہنا تھا کہ میرے ساتھ 2002 سے لیکر مرتے دم تک انہوں نے ایک ہمدرد اور بہترین مخلص دوست کا ساتھ نبھایا انکا کہنا تھا کہ جس محفل میں ماسٹر راشد ہوتے اس محفل کو چار چاند لگا دیتے ماسٹر راشد صاحب کی شخصیت میں معاملہ فہمی تحمل مزاجی خوش اخلاقی خلوص نیت اور ایمانداری جیسی بے شمار خصلتیں پائی جاتی تھیں پنڈی پوسٹ کیساتھ وہ اپنے دیرینہ ساتھی راشد محمود مرحوم کے بارے میں گفتگو کے دوران ماسٹر سیلمان صاحب کی آنکھیں پرنم اور چہرے پر اداسی چھائی تھی مگر وہ اپنے لبوں سے مسکراہٹ کا تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے آخر میں انہوں نے گفتگو کے اختتام پر دعا فرمائی کہ اللہ پاک راشد مرحوم کی تمام دنیوی لغزشوں کو معاف فرما کر انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین میں اپنی تحریر کو سمیٹتے ہوئے آخر میں انتہائی مخلص دوست کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ جو اساتذہ اکرام اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے اللہ پاک انکے درجات بلند فرمائے اور جو زندہ ہیں ان کو لمبی عمر عطا فرمائے۔اُستاد محترم کو میرا سلام کہنا اے دوستو ملیں تو بس ایک پیام کہنا،کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا:میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ سکھایا ان پڑھ تھا اور جاہل،قابل مجھے بنایا،دنیائے علم و دانش کا راستہ مجھے دکھایا مجھ دلایا کتنا اچھا مقام کہنا استاد محترم کو میرا سلام کہنا‘مجھ کو خبر نہ تھی آیا ہوں میں کہا ں سے‘ماں باپ اس زمین پہ مجھے لائے تھے آسماں سے پہنچا دیا فلک تک استاد نے یہاں سے واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے جینے کا فن سکھایا مرنے کا بانکپن بھی،تم فخرِ قوم بننا اور نازشِ وطن بھی،ہے یاد مجھ کو ان کا اک اک کلام کہنا،استادِ محترم کو میرا سلام کہنا،جو عِلم کا عَلم ہے استاد کی عطا ہے ہاتھوں میں جو قلم ہے استاد کی عطا ہے جو فکرِ تازہ دم ہے استاد کی عطا ہے جو کچھ کیا رقم ہے استاد کی عطا ہے ان کی عطا سے چمکا ہے نام کہنا استادِ محترم کو میرا سلام کہنا۔