سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد۹مئی کو انتہائی افسوس ناک واقعات پیش آئے جن میں عمران خان کے چاہنے والوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سرکاری املاک کو جلانے کے ساتھ ساتھ نجی املاک کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے خصوصی طور پر فوجی تنصیبات اور افواج پاکستان سے وابستہ افسران اور دفاتر کو نشانے پر رکھا، کور کمانڈر اور جی ایچ کیو پر بھی حملہ کیا اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ انہوں نے جناح ہاؤس کو بھی جلایا اور غریب عوام کے رکشے اور ایمبولینس تک جلا ڈالی۔
ہماری قومی سیاست میں ۹ مئی کے واقعات ایک بہت بڑا موڑ ثابت ہوئے اور اس کے بعد تحریک انصاف جو ناقابل شکست سمجھا رہی تھی اور جس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا تھا اس کے رہنما اسے چھوڑنے لگے ایک کے بعد ایک خبر آنے لگی، صبح شام رہنماؤں کی تحریک انصاف چھوڑنے کے خبریں گردش کرنے لگیں،صبح خبریں سنیں تو معلوم ہوتا تھا تین چار رہنما تحریک انصاف کو چھوڑ چکے ہیں شام کو خبر یں سنتے تو معلوم ہوتا کہ اتنے رہنما تحریک انصاف کو چھوڑ چکے ہیں ایسے رہنماؤں نے تحریک انصاف کو چھوڑنا شروع کر دیا جنہیں ٹکٹ بھی مل چکے تھے۔ اب رفتہ رفتہ سینئر رہنماؤں نے بھی تحریک انصاف کو چھوڑنے کے اعلانات شروع کر دیے ہیں جن میں ڈاکٹر شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان سرفہرست ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو صبح شام عمران خان اور پی ٹی آئی کے گن گاتے تھکتے نہیں تھے۔ عمران خان کا ہر دم دفاع کرتے تھے اور ان کے مخالفین پر شدید تنقید بھی کرتے تھے اور بد تمیزی اور بد تہذیبی تک اتر آتے تھے۔
مگر ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پی ٹی آئی کے بہت سے بانیان کے ساتھ ہوا کہ انہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی لیکن بعد میں جب دیکھا کہ تحریک انصاف اور خاص طور پر عمران خان اپنے مقاصد پر نہیں چل رہی ہے اور جس چیز کا اعلان کرتے ہیں یا جس بات کا دعوی کرتے ہیں عملی طور پر اس کے برعکس کرتے ہیں اور تحریک انصاف میں عمران خان کے علاوہ کسی کی جگہ نہیں ہے تو انہوں نے تحریک انصاف کو چھوڑ دیا۔ پھر تحریک انصاف کو دھڑا دھڑ ان لوگوں سے بھر دیا گیا جو دوسری جماعتوں سے تھے اور انہیں کبھی فون کال جاتی تھی ان پر دباؤ ڈالا جاتا تھا یا لالچ دیا جاتا تھاتو وہ دوسری جماعتوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو جاتے تھے۔
2018 کے انتخابات میں تو لوگوں کو بہت بڑی تعداد میں تحریک انصاف میں شامل کر لیا گیا وہ اس طور پر کہ وہ امیدوار جو آزاد حیثیت سے الیکشن میں منتخب ہوئے تھے انہیں تحریک انصاف میں شامل کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا رہا، ایک دن میں پندرہ بیس لوگ تحریک انصاف کو میں شامل ہو جاتے تھے۔ کہیں جہاز چلتے تھے، کہیں پیسہ چلتا تھا، کہیں لالچ اور کہیں خوف، یہ تمام عناصر لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل ہونے پر مجبور کرتے تھے کیونکہ اس وقت مقصد تحریک انصاف کو اقتدار میں لانا تھا۔ اس لیے تحریک انصاف میں ان لوگوں کو دھڑا دھڑ شامل کیا گیا یہ لوگ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے اور تحریک انصاف کے ویژن کے بالکل برخلاف تھے ان پر پہلے سے ہی کرپشن کے الزامات تھے جو خود عمران خان نے لگائے تھے، اس کے باوجود انہیں تحریک انصاف میں شامل کردیا گیا۔
ایسا کس نے کیا اور کیوں کیا یہ ایک الگ بحث ہے جس میں پڑے بغیر ہم اپنے موضوع کو جاری رکھتے ہیں کہ اس وقت تو تحریک انصاف کو حکومت میں لانا مقصد تھا جس کی وجہ سے ایسا ہوا، ان تمام امیدواروں کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا جو الیکشن لڑنا جانتے ہوں یا الیکشن
جیتنے کے قابل ہوں۔ اب جبکہ وہ مقاصد پورے ہو گئے تو تحریک انصاف کو توڑنے کا سلسلہ بھی اسی طرح شروع ہو چکا ہے اسی طرح رہنماؤں کو ڈرا دھمکا کر اور لالچ وغیرہ دے کر تحریک انصاف چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جو رہنما تحریک انصاف نہیں چھوڑتا اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور چند روز جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا جاتا ہے اگر وہ تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردے تو رہا ہو جاتا ہے ورنہ دوبارہ گرفتاری کر لی جاتی ہے۔ اس طرح رہنما جس طرح تحریک انصاف میں آئے تھے اسی طرح تحریک انصاف کو چھوڑ کر جا رہے ہیں یہ انتہائی بزدل لوگ تھے ان کا عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی دلی لگاؤ یا وابستگی نہیں تھی اپنے لالچ اور عہدوں کے چکر میں یہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے جب مقاصد پورے ہو گئے یا پارٹی پر مشکل وقت آیا تو یہ تحریک انصاف کو چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔لہٰذا جماعت وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں لوگ ایک مقصد اور ایک سوچ کے ساتھ شامل ہوں۔
201