98

تحریکِ آزادئ کشمیربھارتی مظالم کا نیا دور/ضیاء الرحمن ضیاء

تقسیم ہند کے وقت متحدہ ہندوستان میں تقریباً 562آزاد ریاستیں تھیں جن پر نوابوں کی حکمرانی تھی،تقسیم کے وقت اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان اکثریت والے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل کیے جائیں گے۔ کشمیر میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اور جغرافیائی اصولی اور مذہبی لحاظ سے بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا اس لیے وہاں کے عوام کی خواہش پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی تھی لیکن وہاں کے ہندو راجہ نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق کر دیا ،بھارت نے اپنی فوج وہاں بھیج کر غاصبانہ قبضہ کر لیا تو کشمیر کے غیور مسلمان اس کے اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے وہاں جنگ شروع ہو گئی ۔پاکستان کے مختلف علاقوں سے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے وہاں پہنچ گئے اور کشمیر کا کچھ علاقہ بھارت سے آزاد کرا لیا جو آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔باقی علاقے میں بھی جب مسلمانوں نے کافی کامیابی حاصل کر لی توبھارت کی دوڑیں لگ گئیں اور اس نے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا ۔اقوامِ متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جنگ بندی کرا کے دو قراردادیں منظورکیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے گا اور کشمیریوں کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود رائے شماری کے ذریعے سے کریں۔لیکن بعد میں بھارتی حکمران اپنے وعدوں سے پھرگئے اور کشمیریوں کو نہ ہی تو حقِ خود ارادیت دیا اور نہ ہی وہاں استصوابِ رائے فراہم کیا گیامسئلہ کشمیر مسئلہ ہی رہ گیا اور کشمیری آج تک اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور کشمیریوں کی تین نسلیں اس جنگ کی نذر ہو چکی ہیں ۔ بھارت نے کشمیریوں پر ہر طرح کے ظلم و ستم کیے ، ان کے نوجوانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ، ان کی عورتوں سے بد تمیزیاں کیں، ان کے بزرگوں کی بے حرمتی کی ،لیکن سلام ہے کشمیری عوام کو کہ اتنے ظلم و ستم برداشت کر لیے لیکن آزادی کے معاملے میں ذرا لچک نہ دکھائی اور بھارت کے سامنے مسلسل سینہ تان کر کھڑے رہے اور بھارت اپنی فوجیں کشمیر میں بھیجنے پر مجبور ہوتا رہا ۔
حالیہ ایک ہفتے سے مسلسل کشمیری بھارتی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں،یہ احتجاج ایک کشمیری حریت پسند نوجوان برہان مظفر وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے خلاف ہے ، اس نوجوان نے انتہائی کم عمری میں بھارتی غاصبانہ تسلط کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور کشمیر کی آزادی کے لیے جدو جہد شروع کر دی ۔ وہ مردِ مجاہد جس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ،جس نے کشمیریوں میں آزادی کا نیا جذبہ پیدا کر دیا ، جس نے کشمیری نوجوانوں کو بھارتی مظالم سے نجات حاصل کرنے کی نئی راہیں دکھائیں اس نڈر مجاہد کی عمر شہادت کے وقت صرف 22سال تھی اور وہ یہ فرائض 15سال کی عمر سے سر انجام دے رہا تھا ۔اس کم سن مجاہد نے انتہائی بے باکی سے سوشل میڈیا پر تقا ریر کا سلسلہ شروع کیا اور نوجوانوں کو جدوجہد آزادی تیز کرنے کی ترغیب دینے لگا،اسلحہ کے ساتھ اس کی تصویریں دیکھ کر بھارتیوں کو آگ لگ جاتی تھی ۔اس کی اتنی جرأت دیکھ کر بھارتیوں کے تو ہوش اڑگئے اور اس نو عمر مجاہد کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کر دی مگر اس عظیم مجاہد کے دل میں آزادی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا لہٰذا اس نے بھارت کی طرف سے کسی بھی دھمکی کی پرواہ نہ کی اور اپنی جدو جہد جاری رکھی اور کشمیری نوجوانوں پر محنت کرتا رہا اور نوجوان بھی اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آزادی کے لیے بھارت کے خلاف میدانِ عمل میں اترنے لگے ۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے بھارتیوں نے اس ننھے مجاہد کے خلاف اپنی کوششیں تیز کر دیں اور آخر کار 8جولائی کی شام کو برہان مظفر وانی اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کر گیا لیکن اس نے کشمیریوں میں آزادی کی جوچنگاری سلگائی تھی اس کے شعلے بھڑک اٹھے اور عوام اپنے معصوم لیڈر کی جدائی کا غم برداشت نہ کر سکے اور کرفیو کے باوجود جوق در جوق جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔بھارتی فوج نے جنازہ پر آنے والوں کو روکنے کے لیے شاہراہوں کو بند کر دیا مگر لوگ پگڈنڈیوں کے ذریعے شہید کے آبائی قصبہ ترال میں پہنچ گئے ۔برہان وانی کی شہادت کے ساتھ ہی تحریکِ آزادئ کشمیر میں ایک نیا باب شروع ہو گیا ۔جنازہ کے بعد عوام نے ایک زبردست احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو بھارتی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور نہتے عوام پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں اب تک 40سے زائد معصوم کشمیری شہید اور500سے زائد زخمی ہو چکے ہیں اور بھارتی مظالم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ،ادھر بھارتی فوجیوں کے پاس جدید رئفلیں ہیں جن سے وہ عوام الناس پر گولیاں برساتے ہیں اور دوسری طرف سے کشمیری نوجوان ان کا مقابلہ پتھروں سے کرتے ہیں۔ بالکل نوجوان لڑکوں کو بھارتیوں پر پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ اتنے کم سن لڑکے کتنی جرأ ت کے ساتھ اپنے وطن کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔
بھارت نے کشمیریوں کوآزادی کی جدوجہد سے روکنے کے لیے اپنی تمام تر کوشش صرف کر دی لیکن کشمیری عوام کا جذبۂ حریت بجائے دبنے کے مزید ابھر رہا ہے اور یہی جذبہ ایک دن کشمیر کو آزادی دلائے گا ،انشاء اللہ۔ بھارتیوں کے مظالم جتنے بڑھ رہے ہیں کشمیریوں کی بھارت کے خلاف نفرت بھی اس سے کہیں زیادہ بڑھ رہی ہے۔ وہ اب سرعام پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے ہیں بلکہ بھارتی فوج کے سامنے پاکستانی پرچم لہرا کر ان کے دل میں خنجر گھونپ رہے ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ کشمیریوں کی اس ادا پر بھی دل غم سے پارہ پارہ ہو جاتا ہے کہ ہم نے کشمیر کے لیے کیا کیا ہے اور کشمیریوں کی پاکستان سے محبت دیکھو کہ اتنے ظلم و ستم کے باوجود موت کے منہ میں کھڑے ہو کر بھی وہ پاکستان کا ہی نعرہ لگاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے کشمیریوں کے لیے سال میں5مئی کا ایک دن مقرر کر رکھا ہے جس کو منا کر بزعمِ خود وہ کشمیریوں کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کر دیتے ہیں۔اس مسئلہ کو جس طرح سے عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے تھا اس طرح سے نہ اٹھایا گیا ،جب کشمیر میں بھارتی بربریت زیادہ ہو جاتی ہے تو بس رسمی طور پر چند مذمتی کلمات کہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہر قسم کا جانی،مالی ،اخلاقی ،سفارتی اور فوجی تعاون کریں کشمیر کی آزادی کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کریں بھارت کو سختی سے جواب دیں کیونکہ اس مسئلہ میں بھارت کسی قسم کی نرمی کا مستحق نہیں ہے اور نہ ہی اس مسئلہ میں اس کے ساتھ نرمی برتنی چاہیے ۔ مسئلہ کشمیر پرپاکستان کا انتہائی مظبوط مؤقف ہونے کے باوجود پاکستانی دنیا کی حمایت حاصل نہیں کر سکے حالانکہ اس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں ،بھارت کا قبضہ بھی غیر قانونی ہے،ہزاروں مسلمان بے دردی سے شہید بھی ہو رہے ہیں اس کے باوجود پاکستان اس مسئلہ پر عالمی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔
امریکہ جو کہ بھارت میں ہونے والے کسی بھی دہشتگردی کے واقعہ کا الزام پاکستان پر ڈال کر فوراً بغیر کسی ثبوت کے پاکستانی شہریوں کی گرفتاریوں اور پابندیوں کا حکم دے دیتا ہے یہاں آ کر ااس کا منہ بھی بند ہو جاتا ہے ۔کیا انہیں کشمیر میں شہید ہوتے ہوئے مسلمان نظر نہیں آرہے،کیا وہ لاکھوں لوگ جو اس وقت بھی بھارت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور گزشتہ 70سال سے اسی طرح بھارت کے مظالم سہتے آرہے ہیں وہ انسان نہیں ہیں ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ امریکہ کی اسی مسلمان د شمن پالیسی کی وجہ سے مسئلۂ کشمیر آج تک حل نہیں ہو پایا۔اس کے لیے پاکستان کو خود ہی ایک مظبوط تحریک چلانا ہو گی،پالیسی سازوں کو ایک بہترین لائحۂ عمل تیار کرنا ہو گا، کشمیر پالیسی کا جائزہ بھی لینا چاہیے ،عالمی سطح پر اس مسئلہ کو مظبوط مؤقف کے ساتھ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا بھر میں موجود تقریباً 100سے زائد سفارت خانوں کو اس سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں