انسان کی نیت بھی شایداُس کی بخشش کا پیمانہ ہوتی ہے کوئی اپنا مال واسباب دوسروں کی خاطر استعمال میں لاتا ہے اور بعض اس نیت کے مالک ہوتے ہیں کہ جن کاسامنے والے کی دولت پر کوئی حق نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی بدنیتی کے حصار میں مدہوش ہو کر اسے اپنے لیے مخصوص سمجھتے ہیں۔ زندگی گزارنے کیلئے مثالی معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے ایسے مثالی معاشرے کی جہاں انصاف ہو۔امن ہو اور ہرانسان کو مساوی حقوق دستیاب ہوں اور یہ اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب ہر ادارہ عوامی مفادات اور اپنے ذمہ واجب فرائض کی ادائیگی پوری ایمانداری اور خلوص نیت سے کرے لیکن ہمارے یہاں جہاں گیری کی خواہش اور زر کا حصول فطری کمزروی بن چکا ہے۔ہم بحیثیت قوم قوت واخوت ایمانداری اور سچائی ہر محاذ پر پسپا ہیں کیونکہ ہم سب اپنی ذات میں قید ہیں اس نفسانفسی کے دور میں ہر شخص اپنے نفس کے زاندن میں قید دیکھائی دیتا ہے اور اسی نفس کے بہکاوئے کے باعث ہم دین اسلامی کو۔ پس پست ڈال کر آگے بڑھنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں ہمارے چاروں اُورگھور اندھیروں نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا ہے ہولناک سائے ہماری زندگیوں کو اپنے خون آشام پنجوں میں دبوچ کر نگل رہے ہیں۔
ہماری زندگی کچھ اس طرح سے محبوس ہے کہ ہم قدم قدم پر گویا ہماری سانسیں اپنے آنے جانے کا تاوان دے رہی ہیں حکمرانوں کی نااہلیاں اپنی جگہ لیکن اداروں کی نااہلیوں نے عوام کا سکون اور چین چھین لیا ہے امن وامان اور عوام کو تحفظ کا احساس دلانے کے لیے قائم کیاجانے والا محکمہ پولیس اپنی نااہلی اور روایتی سستی کے باعث عوام کو مسلسل عذاب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔اگر صرف پولیس اپنے فرائض کو پوری ایمانداری سے ادا کرنے لگے تو عوام کے اسی فیصد مصائب ومسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن یہ ادارہ اور اس میں تعینات افراد ڈیوٹی کے بجائے زر کی تلاش میں سرگرداں نظرآتے ہیں۔شکار کی تلاس کے علاوہ جھوٹی درخواستیں اور اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے غیرقانونی اور غیر آئینی اقدام کے ذریعے مال بنانے کی جستجو نے انہیں فرائض سے غافل کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اس وقت چوروں‘ ڈاکوؤں‘ نوسربازوں‘منشیات فروشوں اور راہ زنوں کے رحم وکرم پر ہیں گوجرخان تھانے کی حدود میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب کوئی وارادت سامنے نہ آئی ہو۔ہر روز کہیں نہ کہیں لوٹ مار‘ چھینا چھپٹی کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔31 مئی کی شب گوجرخان تھانے کی حدود میں واقع بھڈانہ کانسی پل پر ہونے والی اسٹریٹ کرائم کی واردات نے گوجرخان پولیس کی نااہلی اور کاہلی کو پوری طرح واضح کردیا ہے جس میں نامعلوم مسلح افراد نے کھوکھا بازار میں کاروبار کرنے والے دو بھائیوں عابد حسین وارثی اور اسجد حسین کو گوجرخان سے واپس گھرجاتے ہوئے اسلحہ کے زور پر ان سے ہزاروں روپے لوٹ لیا اور مزاحمت پر فائرنگ کی اور آہنی راڈ کے وار کرکے دونوں بھائیوں کو زخمی کردیا۔پولیس حسب سابق اور حسب روایت موقع پر پہنچی اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بڑھکیں مارکر خداداد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے متاثرین کو مطمئن کیا ہوگا یا کر لیا جائے گا۔دوتین دن متاثرین تھانے کے چکر لگائیں گے اور پھر کیس ماضی کے کیسوں کی طرح داخل دفتر اس وقت تک شاید لوٹ مار اور چھینا چھپٹی کی درجنوں وارداتیں ہوچکی ہوں گی لیکن کسی ایک کا بھی سراغ نہیں مل سکا۔اور نہ کبھی مل سکے گا کیونکہ پولیس کی ان بنیادوں پر ٹرینگ ہی نہیں ہوئی جس کے تحت وہ تفتیش کرکے ملزمان تک پہنچ سکیں۔ ہماری پولیس کی ٹرینگ صرف عوام کو جائز وناجائز تنگ کرکے رقم اینٹھنا تک ہی ہوتی ہے۔
اگر جرائم کی بیچ کنی مقصود ہو تو گوجرخان تھانے کی حد میں غیرقانونی طور پر آباد ہونے والے غیر مقامی افراد کو قانون کے دائرے میں لایا جاتا۔ قانون کرایہ داری ایکٹ پر عمل کروایا جاتا۔ تاکہ غیر مقامی افراد کا ڈیٹا اور ان کے بیک گراؤنڈ اور ایکٹویٹی بارے تھانے میں معلومات موجود ہوتیں گوجر خان اور گرد ونواح میں جرائم کے پنپنے کی ایک بڑی وجہ ان غیرمقامی افراد کا بلاروک ٹوک علاقے میں رہنا اور آنا جانا ہے۔ کیونکہ ان غیر مقامی افراد میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے اور افغانوں کی تاریخ پڑھیں تو یہ لوگ ہمیشہ اسلام کے نام پر اس اس علاقے پر حملہ آور رہے ہیں یہ ماضی بعید میں خطہ پوٹھوہار کو لوٹتے رہے ہیں اور اب بھی اپنے آباؤاجداد کے اسلوب اپنائے ہوئے ہیں۔پولیس کے اعلیٰ حکام کو تھانہ گوجرخان اور چوکی قاضیاں کو فوری تبدیل کرکے کسی ذمہ دار آفیسر کی تعیناتی کرنا چاہیے کیونکہ پہ درپہ وارداتوں کے باعث عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہونے کو ہے۔