چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جنسی زیادتی کی وجہ فحاشی و عریانی ہے، انہوں نے بالکل بجا کہا لیکن ہمارے ملک کا ایک خاص طبقہ جو ہمارے معاشرے میں فحاشی و عریانی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، اسے آگ لگ گئی اور سوشل میڈیا پر انہوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ ہر ایک اپنے طریقے سے، اپنے علم کے مطابق اپنی سوچ کی عکاسی کر رہا ہے اور عجیب و غریب دلائل دے کر وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کر رہا ہے۔ وزیراعظم کی سابقہ اہلیہ جمائما نے ساری ذمہ داری مردوں پر عائد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قرآن کریم کی سورہئ نور کی ایک آیت کا حوالہ دیا، جس میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ”مؤمنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظروں کو جھکائیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“۔ یہ آیت تو انہیں اپنے کام کی دکھائی دی تو انہوں نے فوراً شیئر کر دی اور ساری ذمہ داری مردوں پر عائد کر کے عورتوں کو ہر ذمہ داری سے بری کر دیا لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اسی قرآن کی سورہئ احزاب میں اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ ”اے نبی ﷺ اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر جھکا لیا کریں، اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا“۔ اس آیت کے بارے میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس مراد چہرے کا پردہ ہے کہ جب خواتین کو کسی کام سے باہر جانا پڑے تو اپنے چہرے کو چادر سے چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ جس سے راستہ دیکھ سکیں، کو چھوڑ کر باقی پورا جسم اور چہرہ چھپا لیا کریں اس آیت مبارکہ سے ساری صورتحال واضح ہو جاتی ہے، حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ”اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواجِ مطہرات ؓ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں پر جھکا کر انہیں چھپا لیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپا لیا جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے، اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ سے نقاب ڈال لیا جائے۔ بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لیے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہو گی۔ اس کے برخلاف بے پردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں۔ علامہ ابو حیان ؒ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے (البحر المحیط)“۔ تی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ”آیت مذکورہ میں حرہ (آزاد) عورتوں کے پردہ کے لیے یہ حکم ہوا ہے کہ یدنین علیھن من جلابیبھن، اس میں یدنین، ادناء سے مشتق ہے، جس کے لفظی معنی قریب کرنے کے لیے اور لفظ علیھن کے معنی اپنے اوپر اور جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر ہے جو دوپٹہ کے اوپر اوڑھی جاتی ہے (ابن کثیر) اور حضرت ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی ہے: ”اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپالیں اور صرف ایک آنکھ (راستہ دیکھنے کے لیے) کھلی رکھیں“۔ اور امام محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سلمانی ؒ سے اس آیت کا مطلب اور جلباب کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے سر کے اوپر سے چادر چہرہ پر لٹکا کر چہرہ چھپا لیا، اور صرف بائیں آنکھ کھلی رکھ کر ادناء و جلباب کی تفسیر عملاً بیان فرمائی۔“اس آیت میں اللہ رب العزت نے پردے کا حکم دیا ہے اور اس کی جو حکمت بیان کی ہے وہ بھی انتہائی قابل غور ہے کہ ” وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا“۔ یہی وہ اصل بات ہے جو قابل غور ہے کہ اگر خواتین پردہ کریں تو انہیں ستایا نہیں جائے گا، یہاں اللہ رب العزت نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ منافقین اگر خواتین کو ستاتے ہیں تو وہ مجرم ہیں انہیں سزا دو، انہیں سزا کا حکم ضرور ہے لیکن پہلے خواتین کو پردے کا حکم دیا ہے اس کے بعد منافقین کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس زمانے کے اوباش لوگ کنیزوں کو چھیڑتے تھے اور ان کی آڑ میں آزاد شریف عورتوں کو بھی چھیڑا کرتے تھے تو خواتین کو ان کی اس ایذا رسانی سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خواتین کو پردے کا حکم دیا اور پھر منافقین کو باز نہ آنے پر سزا کا حکم بھی دیا۔ اس آیت میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اللہ رب العزت نے خواتین کی عزتیں محفوظ کرنے کے لیے خود خواتین کو پردے کا حکم دیا، جس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر خواتین پردہ نہیں کریں گی تو وہ غلیظ طبیعت کے لوگوں کی ہوس کا نشانہ بنیں گی جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کے لیے عورتیں پردہ کریں اور اگر اس کے باوجود وہ لوگ خواتین کو ستانے سے باز نہیں آتے تو انہیں کڑی سزا بھی دی جائے گی۔ جدید دنیا میں اس کا الٹ ہو رہا ہے کہ مردوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دو اور خواتین کو کھلی چھوڑ دو، ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ ایک طرف تو مردوں کی فطری ہوس کو بڑھانے کا سامان خود مہیا کرو اور پھر کہو کہ خواتین محفوظ بھی رہیں اور اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں ہے کہ اگر کوئی مرد کسی سے بدفعلی یا بداخلاقی کا مرتکب ہو تو اسے صرف اس وجہ سے سزا نہ دی جائے کہ خاتون بے پردہ تھی اور اس نے خود مرد کی شہوت کو بھڑکایا، نہیں بلکہ مجرم کو تو سزا ضرور ملے گی بلکہ ہم تو اسلامی تعلیمات کے مطابق مجرم کو سرعام عبرتناک سزا دینے کے قائل ہیں تاکہ ایک کی سزا سے دوسرے ہزاروں افراد عبرت حاصل کریں اور اس قسم کے جرم کا تصور بھی نہ کر سکیں۔ تو اس برائی سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود خواتین کو پردے کا حکم دیا، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ خواتین کے بے پردہ ہونے سے اس برائی میں اضافے کا قوی امکان ہے اور اگر خواتین پردے میں رہیں تو اس جرم سے معاشرے کو پاک کیا جا سکتا ہے۔ یہی قرآن کریم کی تعلیمات ہیں جن کو سمجھ کر ان پر عمل کیا جائے تو معاشرہ پاک صاف ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآنی تعلیمات اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم ذات ہے جس سے کسی قسم کی غلطی کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہے لیکن جو قوانین جدید دنیا میں رائج ہیں یہ انسانوں کے وضع کردہ ہیں اور انسان تو خطا کا پتلا ہے انسان سے قدم قدم پر غلطیاں ہوتی ہیں، اللہ رب العزت کے قوانین کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرنے کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ جب ایک طبقے کو حقوق دینے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرے طبقے کے حقوق مارے جاتے ہیں، یہ کبھی بھی صحیح طور پر سب کو حقوق نہیں دے سکتے لیکن اسلام نے تمام طبقات کو ان کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں۔ اس لیے جدید مفکرین کے قوانین کی بجائے شریعت کے قوانین کو اپنایا جائے تو یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ
298