348

بیڈ فورڈ بسوں کے استاد جی

1962 ماڈل بیڈ فورڈ بسوں کے ہارن سے پتہ چل جاتا تھا کہ اس کا نمبر کیا ہے۔ سکول میں جب کبھی دوران کلاس ہارن بجتا تو ٹیچر کی موجودگی میں بھی کان میں سر گوشی کر دیتے 2766 آئی اے ہن 1785 بولی اے۔اُس زمانے میں بس ڈرائیور کو بہت قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سب استاد جی کے نام سے بلاتے تھے اُستاد جی کے اپنے ٹشن ہوتے تھے استری شدہ سوٹ‘کھلے بٹن جس میں سے میلی بنیان نظر آتی تھی،کھلی چپل کھیڑیاں،کھلے پائنچے تقریباً بارہ انچ، چونا آلے کف، انگلیوں کے درمیان سلگتا ہوا مارون کاسگریٹ، بس کیا بتائیں استاد جی کے نخرے پھر۔ بس اسٹارٹ ہونے کے بعد 20 سے 25 ہارن بجانا استاد جی کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ حالانکہ بس پارکنگ میں کھڑی ہوتی تھی، ہارن کس لیے بجتا تھا؟ فرنٹ سیٹ اور ڈرائیور کے دائیں طرف والا ٹول بکس صرف وی آئی پی افراد کیلئے مختص ہوتا تھا۔ بعض اوقات تو دو دو دن ایڈوانس فرنٹ سیٹ بک کروا دی جاتی لیکن استاد جی کے پاس ویٹو پاور بھی تھی کسی بھی منظور نظر کو کسی وقت بھی نواز سکتے تھے۔ ڈرائیور کے دائیں جانب ٹول بکس پہ بیٹھنا فخر سمجھا جاتا تھا اور بیٹھنے والا کالے رنگ کا چشمہ ضرور پہنتا تھا تاکہ خواتین کو تاڑنے میں آسانی رہے۔استاد جی کا پورا علاقہ قدر کرتا تھا۔عموما ًاستاد جی غصے والے ہوتے تھے جو سواریوں کی موجودگی میں کنڈیکر کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔کنڈیکر سے یاد آیا، کنڈیکر کی بھی تین اقسام ہوتی تھیں ایک غریب نادار جو فقط مزدوری کیلئے آتے تھے دوسری قسم جو ہوشیار ہوتے تھے مسافروں پر جگتیں لگاتے اور ان کے تیور بھی بتا رہے ہوتے کہ آئندہ 15 سے 20 سال کی محنت شاقہ سے یہ بھی منصب استاد جی پر براجمان ہونگے۔تیسری قسم وہ کنڈیکر ہیں جن کی اپنی بس ہوتی تھی یا مامے،چاچے کی بس ہوتی تھی ان کے نام کیساتھ نائیک جی کا لاحقہ بھی لگا ہوتا تھا۔ہر کوئی انھیں نائیک جی کے نام سے پکارتا تو اس لمحے نائیک جی آدھا فٹ فضا میں ہی معلق ہو جاتے تھے۔ ان کیساتھ ایک سب کنڈیکر بھی ہوا کرتا تھا۔بس کی گیلری میں 20/25 لوگ کھڑے ہوتے اتنے ہی پوہڑی اور سائیڈ پر رستے میں کوئی سواری ہاتھ دے اور استاد جی بس نہ روکیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگرچہ گنجائش پیدا کر ہی لی جاتی اگر خاتون مسافر ہوتی تو کنڈیکر با آواز بلند کہتا لیڈیز سواری کیلئے جگہ خالی کرو اوئے۔ تو ہر کوئی بلا توقف اپنی سیٹ چھوڑنے کو آمادہ ہو جاتا۔استاد جی بس میں عطااللہ‘لتا منگیشکر‘رفیع اور صبح کا وقت ہو عزیز میاں و ہمنوا اودھم مچاتے رہی سہی کسر بیڈ فوڈ چڑھائی میں اپنے انجن کی صورت بالا سے پوری کر کے سماعتوں کو صبر جمیل عطا فرماتی۔استاد جی سے تعلق اور واقفیت ایسے ہی بلند مرتبت سمجھی جاتی جیسے DCO سے شناسائی ہو استاد جی اگر کسے جاننے والے پر نظر التفات فرماتے تو وہ شخص پھولا نہ سماتا اسے اپنے پاس بیٹھنے کیلئے اشارہ کرتے تو موصوف باقی مسافروں کو پھلانگتے ہوئے استاد جی کے قریب پڑے ٹول بکس پر اپنی آدھی تشریف کیساتھ ہی براجمان ہو جاتے حتیٰ کہ موڑ کاٹتے ہوئے توازن کو برقرار رکھنا خاصہ مشکل مرحلہ ہوتا لیکن موصوف نہ صرف توازن برقرار رکھتے بلکہ اپنی گردن لمبی کر کے عطااللہ کا گیت اور بیڈ فورڈ بس کے انجن کی تیز آواز کے استاد جی سے گپ شپ کی سعی کرتے پھر داد طلب نگاہوں سے مسافروں کی طرف دیکھتے یہ سلسلہ اختتام سفر تک جاری رہتا۔جب مسافر کے اترنے کا وقت آتا تو بھی دو طریقے اختیار کیے جاتے اگر کوئی صاحب ثروت یا پھنے خان ہے تو استاد جی بریک کا پورا استعمال کرتے تا دم مسافر اتر نہ جائے اور اگر کوئی عام مسافر ہوتا تو استاد جی بریک کا تھوڑا آسرا کرتے باقی کسر کنڈیکر ان کو جگتیں لگا کر گیٹ سے جلدی چھلانگ لگانے پر آمادہ کر لیتا اور پھر اونچی آواز میں کہتا۔چلو چلو۔جان دیو استاد جی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں