طالب حسین آرائیں/ کائنات میں دولت ایک ایسا طلسم ہے جو گہرے جذبات یا اتھاہ گہرائیوں میں موجزن محبت کی طاقت کو بھی اپنے سحر میں مقید کر لیتی ہے دولت کے سامنے کون وسمندر تک ہر شے بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے دوہرامعیار‘دوہری شخصیت عارضی طور پر نمایاں مقام تو دے سکتی ہے مگر مستقل سچ کی کسوٹی پر پورا اتر کر ہی انسان پر سکون ہوپاتا ہے۔جو لوگ معاشرے میں زہر پھیلانے کا باعث بنتے ہیں جب ان کا اپنا پاوں اس دائرے میں آتا ہے تو ذلت وسوائی کا گھیراو¿ انہیں اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ دولت کے انبار بھی اس داغ کو مٹا نہیں پاتے۔لیکن یہ بات بام عروج پر سمجھ نہیں آتی۔پر آسائش زندگی ہر شخص کی خواہش ہر شخص کا حق ہے اور اس کے لیے جہدوجہد کرنا بھی ہر ایک کا حق،لیکن اس زندگی کو پانے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرنا جس سے دوسروں کی زندگیاں عذاب بن جائیں کسی طور مناسب نہیں۔راتوں رات اپنی زندگی کو بدلنے کی خواہش رکھنے والے اس منزل کو پانے کے لیے پھر غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں وطن عزیز میں دولت کمانے کے لیے دھوکہ دہی‘فراڈ‘ملاوٹ‘جعل سازی کے علاوہ سب سے زیادہ منافع بخش کام منشیات کی فروخت سمجھا جاتا ہے اس گھناونے کاروبار سے منسلک لوگ اپنے بچوں کو پرتعیش اور آرام دہ زندگی دینے کے لیے قوم کے بچوں کی زندگیاں جہنم بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ملک بھر میں منشیات فروشی کا کاروبار بلا خوف وخطر جاری ہے۔کیونکہ اس کی آمدنی سے صاحب لوگ بھی حصہ وصول کرتے ہیں۔اور یہ بات ہمارے سیاسی رہنما اور قلمکار بھی باخوبی جانتے ییں لیکن ہم لوگ اپنا فرض نبھانے سے قاصر ہیں۔کئی جگہ تو سیاسی افراد صرف ووٹ کے لیے منشیات فروشوں کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں ملک بھر کی طرح تحصیل گوجر خان کے قصبے بیول اور ارد گرد کے کچھ دیہاتوں میں مبینہ طور پر منشیات فروشی کی اطلاعات ہیں۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ بیول میں علی الصبح وارد ہونے والی بھکاری خواتین مانگنے کے علاوہ مبینہ طور پر غیر اخلاقی کاموں اور منشیات فروشی بھی کرتی ہیں۔اس کے علاوہ بیول کے اردگرد بھی منشیات فروشی کی شکایات تواتر سے ملتی ہیں۔اطلاعات یہ بھی کہ منشیات یہاں تک پہنچانے کا بھی ان اداروں کی کچھ کالی بھیڑیں کرتی ہیں منشیات فروشی بند کروانا جن کے فرائض میں شامل ہے۔جب چوکیدار ہی چوروں سے مل بیٹھے گا تو بہتری کی امید کیا رکھی جاسکتی ہے۔تنوع کے متلاشی لوگ معزز اور بلند مقام کے حصول کی خاطر خود کو کتنی پستی میں گرا لیتے ہیں یہ ان منشیات فروشوں کے کردار سے واضح ہوتا ہے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ منشیات کی باآسانی دستیابی کے باعث نوجوان نسل تیزی سے اس کا شکار ہو رہی ہے۔کچھ عرصہ قبل بیول میں منتخب ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کی گوجر خان پولیس افسران کے ہمراہ ایک کھلی کچہری میں بیول کے عوام نے دیگر ایشوز کے علاوہ منشیات فروشی کی کھل کر بات کرتے ہوتے ہوئے ان دیہاتوں کی نشاندھی بھی کی جہاں یہ گھناونا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے لیکن یہ کھلی کچہری حسب روایت ڈھونگ ہی ثابت ہوئی کہ اس میں عوام کی جانب سے کی جانے والی کسی ایک بھی شکایت کا ازلہ نہ ہوسکا۔ابھی چند روز قبل سوشل میڈیا پر گوجر خان پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او بارے گوجر خان میں منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈون کرنے پر تعریفی بینرز آویزں کیے جانے کی پوسٹیں نظر سے گذریں اگر ایس او گوجر خان منیشات فروشی کے خلاف واقعی کاروائی کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو ان کی یقیناً تعریف بھی ہونا چاہیے۔لیکن بیول اور ارد گرد کے علاقوں سے ملنے والی منشیات فروشی کی مصدقہ اطلاعات ایس ایچ او گوجر خان کے حق میں لگنے والے تعریفی بینرز کی نفی کرتی ہیں۔کیونکہ کوئی بھی ایس ایچ او اپنے علاقے میں پنپنے والے کای بھی غیر قانونی عمل سے بے خبر نہیں ہوتا۔اور گوجر خان تھانہ کے انچارج بھی اپنے علاقے کے ان افراد بارے پوری خبری گیری رکھتے ہوں گے جو منشیات اس علاقے کے خوردہ فروشوں تک پہنچانے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔اورمنشیات کی خوردہ فروشی میں کون کون لوگ ملوث ہیں۔اپنی بائیس سالہ صحافتی زندگی کے تجرے کی بنیاد پر میں میرا دعویٰ ہے کہ اگر علاقے کا ایس ایچ او نہ چاہے تو اس کے علاقے میں منشیات فروشی کسی طور ممکن نہیں۔البتہ میں تھانے چلانے کے لیے رقوم کی ضرورت اور سیاسی عناصر کی مداخلت بارے بھی اگاہ ہوں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ جو ایس ایچ او اپنے فرائض کی بجاآوری کو عبادت تصور کرتا ہے پھروہ کسی سفارش۔کسی مداخلت۔اور کسی دباو کو خاطر میں نہیں لاتا۔اور میں نے ایسے کئی نڈر آفیسر دیکھے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کو اولیت دیتے ہوئے ہر وقت اپنا بستر باندھ کر ٹرانسفر کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتے تھے۔لیکن فرائض کی ادائیگی پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔شکسپئر کا قول ہے کہ جو لوگ بلند مقام پر کھڑے ہوتے ہیں انہیں بہت سی گرانے والی تند وتیز ہواو¿ں کا سامنا ہوتا ہے اور اگر وہ گرجائیں تو ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔۔نظام میں بلند مقام پر کھڑے زیادہ تر لوگ ان ھواو¿ں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔اور گر کر ٹکڑوں میں بکھرتے بھی نظر آتے ہیں۔زندگی کے اس نظام میں شیطان کا بھی اہم رول ہے اگر شیطان نہ ہوتوکوئی انسان نہ رہے سب فرشتے بن جائیں بے شک دولت کے حصول کے لیے مہم جوئی اور جاں کوشی ایک جزولازم ہے لیکن مال۔ودولت اور بے تحاشہ عیش وعشرت کے لیے جرائم اور جرائم کی سرپرستی کسی طور مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔معاشرے میں برائیوں کے پنپنے کی ایک بڑی وجہ سیاسی مداخلت بھی ہے کیا ہمارے لیڈران کو اور منتخب نمائندوں کو بیول اور گرد ونواح میں منشیات فروشی کا علم نہیں۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایس ایچ او گوجر خان اس سے لاعلم ہیں۔نہیں یہ کسی طور ممکن نہیں۔یاد رکھیں یوں تو محبت میں انسان بڑے بڑے امتحان سے گذ جاتا ہے لیکن فرض شناسی ایسا وصف ہے جو محبت میں بھی بے ایمانی کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس کے روشن ضمیر ہونا شرط لازم ہے۔کاش کے تیرے دل میں اتر جائے میرے بات۔
262