140

بیول مسائل کا شکار۔۔۔قصبہ مسیحا کا منتظر

طالب حسین آرائیں/کبھی کبھی دائرے کی سب سے بڑی خوبی سب سے بڑی خامی بن کر انسان کو حیران کر دیتی ہے یعنی جس مقام سے سفر کا آغاز اسی پر اختتام گویا جہاں سے چلے ڈھیروں مسافت اور تھکن کے بوجھ تلے واپس اسی جگہ رک جانے پر مجبور‘یوسی بیول کے باسی بھی گذشتہ سات دہائیوں سے دائرے کے سفر میں ہیں مختلف جماعتوں کی ہمرکابی سے سفرکا آغاز کرتے ہیں لیکن اختتام واپس اسی جگہ پر ہوتا ہے جہاں سے سفر شروع ہوتا ہے ان ستر برسوں میں بیول کے عوام مختلف رہنماو¿ں کو مسیحا کے طور سامنے لائے لیکن مسیحائی نہ ہوئی دکھ اور مصائب جوں کے توں رہے ناانصافی کہیں بھی ہو دلوں میں اکثر غم وغصے اور حسد کو جنم دیتی ہے اگر اس کی بروقت تلافی نہ کی جائے تو یہی جذبات انتقام میں بدل جاتے ہیں اور دکھ دھیرے دھیرے بدلے کی چنگاریوں میں بدل جاتے ہیں بیول اور گرد ونواح میں بسی عوام کے ساتھ ناانصافی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اپنے مصائب اور مشکلات کو حل کروانے کی امید میں لوگ متعدد افراد کو اپنے ووٹوں سے اعلیٰ ایوانوں میں پہنچا چکے لیکن بات نالیوں گلیوں سے سے آگے نہ بڑھی۔موجودہ دور کی بات نہیں کرتے کہ موجودہ منتخب ایم پی اے کو ہے۔ابھی دوسال ہوئے ہیں ان کی کارکردگی پر سوال پانچ سال بعد ہی کیا جاسکتا ہے تاہم اس قبل جتنے افراد اس حلقہ سے جیت کر اسمبیلوں میں پہنچے انہوں نے اس علاقے کو بری طرح نظر انداز کیا خصوصاً مسلم لیگ ن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو ایک طویل عرصہ اس حلقے سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔پیپلز پارٹی بھی یہاں سے صوبائی اور قومی نشستیں جیت کر حکمران بھی رہی لیکن کوئی رہنماءیہاں کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ منظور نہ کروا سکا یہاں کا نوجوان گراونڈ نہ ہونے کی وجہ سے صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور رہنے پر مجبور ہے تیزی سے بگڑتے معاشرے میں نوجوان کو کھیلوں کی جانب راغب کرکے انہیں غیر قانونی سرگرمیوں سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں،علاقے میں منشیات فروشی کی بھی اطلاعات ہیں اور یہ کام منشیات فروش طاقت ور اور بااثر افراد کی پشت پناہی سے کر رہے ہیں جو نسل نو کو تباہی کی جانب دھکیلنے کے مترداف ہے۔شہر میں سلاٹر ہاوس کی عدم موجودگی کے باعث قصاب حضرات حفظان صحت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے گندگی کے ڈھیروں پر جانور ذبح کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بیول کے لوگ کس طرح الودہ گوشت کھانے پر مجبور ہیں۔شہر میں کسی سرکاری پارک کا نہ ہونا بھی ایک الیمہ ہے۔بنیادی مرکز صحت کی نئی عمارت مکمل ہوچکی لیکن بلاوجہ اسے انتظامیہ کے ہینڈ اوور نہیں کیا جارہا جبکہ انتظامیہ ملازمین کے لیے تعمیر شدہ کواٹروں میں سروس کی فراہمی میں مصروف ہیں کواٹرون کی پرانی عمارت انتہائی خستہ حالی کے باعث کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتی ہے ان کوآٹرز کو بلڈنگ ڈیپارئمنٹ خطرناک قرار دے چکا ہے لیکن کسی کی اس جانب توجہ نہیں ہے۔منتخب ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کو عمارت ہینڈ اوور کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ان کے زیر صدارت پولیس افسران کی ہونے والی کھلی کچہری میں منشیات فروشی کے حوالے سے بہت زیادہ شکایات سامنے آئیں لیکن وہ کھلی کچہری بھی حسب روایت نمائشی ثابت ہوئی۔اس کھلی کچہری میں عوام کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔لیکن جواب دینے والے موجود نہیں۔بیول‘جبر اور بیول‘سموٹ روڑ منتخب نمائندوں کی بے حسی پر نوحہ کناں نظر آتی ہے۔شہر میں ڈرینج سسٹم تباہ ہوچکا‘سرکاری اسکولز کی عمارتیں اپنی طبی زندگی پوری کر کے بچوں کے لیے آسیب کی طرح منہ پھاڑے کھڑی ہیں. بلکہ ہائی اسکول میں کچھ عرصہ قبل ایک کلاس زمیں بوس ہوچکی۔لیکن چند روز کی بیان بازی کے بعد اب اس پر خاموشی ہے۔سنا ہے کہ اب اپنی مدد آپ کے تحت ہائی اسکول کی عمارت کا کام کیا جارہا ہے۔تجاوزات کا مسئلہ اب سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے جس کے باعث میلاد چوک میں ٹریفک جام اب معمول بن چکا ہے۔پل کے اردگرد ایک عرصہ سے تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس پر کسی قسم کی کاروائی نہ ہوسکی۔ٹکال پل کے قریب کرش پلانٹ علاقے کے لوگوں میں ٹی بی اور سانس کی بیماریاں بانٹ رہا ہے۔قدرتی حسن میں اضافہ کرنے والے نالہ کانسی کے پتھر بھی اس مافیا کے پیٹ کا ایدھن بن چکے لیکن کیا مجال جو کسی سیاسی سماجی تنظیم کی جانب سے اس پر کوئی آواز اٹھی ہو بیول کے عوام کو اپنی نسل نو کو بہتر مستقبل اور مثالی شہر ھینڈ آور کرنے کے لیے ذات پات اور سیاسی جماعتوں کے سحر سے نکلنا ہوگا اپنے علاقے کو مسائل سے پاک کرنے کے لیے آواز اٹھانا ہوگی۔کہ ترقی ہمارا حق ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں