ایک پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی انسان کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ساری زندگی انسان خوشیوں کے حصول کی خاطر جدوجہد کرتا ہے دنیا بھر کی آ سائشوں کا ڈھیر لگا لیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ مادی آسائش روپیہ پیسہ ہی خوشیوں کا ضامن ہے وہ پیسے کی خاطر جائز وناجائز کی تمیز بھی بھول جاتا ہے لیکن خوشیاں پھر بھی ہاتھ نہیں آتیں وہ تتلیوں کی طرح رنگ چھوڑ کر ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں انسان کی سب بڑی کم نصیبی یہ ہے کہ وہ حاصل کی قدر نہیں کرتا اور لاحاصل کی جستجو میں پوری زندگی گنوادیتا ہے۔قوم کے بعض طبقوں نے ایسا طرز عمل اختیار کررکھا ہے جس سے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر اپنے اختیارات اور منصب کا دبدبہ دیکھایا جاتا ہے۔ملک کے تمام ادارے اور ان اداروں میں بیٹھے عوام کی تنخواہوں سے پلنے والے ملاز مین خود کو عوام کا آقا تصور کرتے ہیں جس ڈیوٹی کے لیے وہ قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اس کی ادائیگی کو قوم پر احسان تصور کرتے ہیں کیونکہ یہاں نہ سزا کا خوف ہے اور نہ ہی سزا کا تصور وہ کیفیت جسے معاشرے گرفت کہتے ہیں وہ پاکستان میں اپنا اثر کھو بیٹھی ہے سو یہاں نہ نیکی کی داد ہے اور نہ بدی کی فریاد کوئی کچھ بھی کرگذرے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔اب تو یہ عالم ہے جو کوئی اداروں میں ڈیوٹی نہ کرنے والوں پر آواز اُٹھائے تو لگتا ہے کوئی بہت ہی لچر اور پوچ بات کی جارہی ہے۔نشاندھی پر ایسے لوگ اور ان کے سیاسی پشت پناہ مسکراتے ہیں اور منصف اور قانون کے رکھوالے بتسیاں نکالتے ہیں کیونکہ سب اس حمام میں ننگے ہیں بیول میں قائم ویٹرنری اسپتال اور اس کا عملہ بھی صرف تنخواہیں ڈکارنے کے لیے ہی رکھا گیا ہے۔کیونکہ اس میں تعینات ڈاکٹر صاحب اپنے فرائض کی بجا آوری میں مسلسل کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔روٹین کے فرائض جس میں اپنے انڈر آنے والے علاقوں کا وزٹ جانوروں کا بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین اور مالکان کو جانوروں کی صحت کے حوالے سے شعور و آگاہی دیناشامل ہیں لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہورہا بلکہ اس کے برعکس مبینہ طور پر اسپتال کا پیون بلوائے جانے پر دیہاتوں میں جاکر جانوروں کو ویکسین کرتا ہے جس کے باقاعدہ چارجز لیے جاتے ہیں جس پر سیاسی وسماجی حلقے مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اپنے اپنے دور اقتدار میں اداروں کی غفلت پر چشم پوشی کرنے والے ہمارے رہبر ورہنماء ادارہ جاتی برائیوں میں برابر کے شریک کہے جاسکتے ہیں گلیاں‘نالیاں بنوا کر فوٹو سیشن کروانے والوں کے نزدیک اداروں کی زیرو کارکردگی بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی بیول اور گرد ونواح کے علاقے چونکہ دیہی علاقے ہیں جہاں لوگ کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ چوپائے جانور بھی پال کر روزی روٹی کرتے ہیں اس لیے بیول میں قائم ویٹرنری اسپتال جانوروں کی افزائش نسل اور صحت کے لیے عوامی سطح پر کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کی اہمیت اس وقت صفر ہوجاتی ہے جب اس میں تعینات عملہ فرائض کی ادائیگی سے صرف نظر کرتا ہے اور ڈیوٹی کی ادائیگی پر عوام سے چارجز کی وصولی بھی کرتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ لائیو اسٹاک بیول ویٹرنری اسپتال میں تعینات عملے کی غیرذمہ داری کا نوٹس لیتے ہوئے تادیبی کارروائی عمل میں لائے تاکہ عوام کو بہتر سہولت کی فراہم ممکن ہوسکے۔
138