200

بیورو کریسی نے ایم پی اے جاوید کوثر کو رسوا کر دیا

نوید ملک/پنجاب میں میلے ٹھیلے بیلوں کی ڈور کبڈی کے مقابلے نیزہ بازی کالے تیتر کی بولی کے مقابلوں سمیت اس طرح کے روایتی مقابلے ہمارے ثقافتی و روایتی پہچان بھی ہیں پنجاب بھر نہ صرف ان مقابلوں و میلوں کو نمایا ں مقام حاصل ہے بلکے ان کے ذریعے کاروباری سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے خطہ پوٹھوہار میں بھی قدیمی ادوار سے ایسی مثبت سرگرمیوں کے انعقاد کی ٹھوس روایات موجود ہیں گوجر خان میں بھی ایسے پروگرامز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ کمشنر و ڈپٹی کمشنر راولپنڈی پنجاب حکومت کی ہدایات کے مطابق عوام کو کورونا سے پہلے کے معمولات زندگی کی طرف لوٹ آنے کے لئے نرمیوں کا اعلان کر رہے ہیں اسی تناظر میں گوجر خان کے مشہور علاقے بیول میں کالے تیتروں کی بلند آواز کا مقابلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر کو نطور مہمان خصوصی مدعو بھی کیا گیا اور صوبائی حکومت کی حکمت عملی کے تحت اسسٹنٹ کمشنر کو بھی آگاہ کیا گیا یہ راویتی میلے ہماری پہچان ہیں ہماری روایات کا حصہ ہیں کورونا وائرس کے ڈر خوف کے بعد ایک ہال میں کالے تیتروں کا مقابلے میں کھلے چہروں سے شامل افراد پر اچانک پنجاب حکومت کے سب سے طاقت ور ادارے پنجاب پولیس کے نوجوان ہال کے اندر داخل ہوتے ہیں اور ہاتھوں میں اسلحہ لہراتے سادہ لوح باسیوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں پنجروں میں رہنے والے کالے تیتر سہم گئے چند منٹ پہلے خوشی و قہقوں میں ڈوبا ہال میں غم غصے کی ماحول دیکھنے کو ملنے لگا ایس ایچ او تھانہ گوجر خان وٹساپ پر موصول ہونے والے ویڈیو کلپ پر بھاری نفری کے ہمراہ بیول پہنچ کر اپنی طاقت دکھاتے ہیں انھوں نے گوجر خان سے بیول کے طویل سفر کے دوران نہ بیول سے متعلقہ پولیس چوکی انچارج سے کالے تیتروں کے مقابلے کی تفصیلات لینا مناسب سمھجا اور نہ ہی تھانے گوجر خان میں تعینات اپنے ڈی ایف سی سے اس پر ایپ ڈیٹ لینا مناسب سمجھا ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر ہال میں چلاتے رہے کہ ضلعی و تحصیلی انتظامیہ کی اجازت سے یہ ثقافتی و روایتی پروگرام کیا جا رہا ہے لوگوں پر تشدد بند کرو مگر پولیس سب انسپکٹر عادل سفید کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں پستول لئے میلوں کو سجانے والوں اور روایات کو زندہ رکھنے والوں کو اپنے اختیار کے نشے میں زمین پر گھسٹا رہا ایس ایچ او تھانہ گوجر کان سب دیکھتے رہے ایسا کیوں کیا ؟ طاقت کے بھرپور استعمال کے بعد پولیس کی اعلی احکام و تحصیل انتظامیہ کے افسران کے رابطے ؟ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر کو اپنے ہی آبائی حلقے میں انکے سامنے پولیس کا انداز تشدد ؟ کیا حکومت مخالف سیاسی قوتوں نے پولیس میں شامل اپنے خاص دوستوں کے ذریعے یہ سب کروایا ؟ گوجر خان سرکل کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے ذرائع معلومات اتنے ناقص کیوں ؟ کالے تیر پاتھوں میں تھامے افراد پر بے رحمانہ تشدد کے پیچھے کیا محرکات ہیں ؟ ایسی ہی ناقص معلومات پر پویس فورس کے جانے کے نتائج سانحہ ساہیوال جیسے سانحات کے پیدا ہونے کا جواز بنتے ہیں پولیس فورس کے اس اقدام کے بعد اسسٹنٹ کمشنر گوجر خان کے آفس میں ممبران صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر ، چوہدری ساجد ، ڈی ایس پی سرکل کے درمیان ہونے والی طویل میٹنگ میں راقم بھی موجود رہا جس میں اپم پی اے چوہدری ساجد نے اپنے حلقے میں پولیس کے رشوت لینے کے درجنوں واقعات کا آواز بلند تذکرہ کیا جس سے ادراک ہوا کہ پولیس نظام بدلنے کی باتیں فائلوں تک ہی محدود ہیں رشوت ت ودھرلے سے جاری ہے ڈی ایس پی سرکل تمام معاملے کو اتفاقی و افسران کے درمیان رابطوں کو بروقت نہ ہو پانے کا قرار دے کے ختم کرنے کے خواہشمند نظر آئے اسسٹنٹ کمشنر آواز بلند اقرار کیا کہ اس پروگرام کی اجازت دی گئی ہے بلکے ایسے تمام تقافتی و روایتی پروگرامز کی مکمل اجارت ہے ، ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر نے دبنگ انداز اختیار کرتے ہوئے درست انداز میں صدائے احتجاج بلند کیا جو کہ سو فیصد درست بھی ہے انھوں نے پولیس کی طرف سے شہید میں بگھوئی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنے لوگوں کا ساتھ دے کر نئی روایت کو جنم دیا ہے جس سے پی ٹی آئی کے وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور پولیس ایکشن کے خلاف دبنگ انداز اختیار کرنے پر جاوید کوثر کے سیاسی قد کھاٹ و وقار میں اضافے کا سبب بھی بنا ہے انھیں سیاسی میدان میں کمتر دکھانے کے خواہشمندوں کا وار ضائع ہو چکا ہے شہریوں پر تشدد کرنے والے سب انسپکٹر عادل کو سی پی او نے معاملے کا نوٹس لے کر معطل کر دیا ہے اب دیکھتے ہیں اس سکریپ کے اصل کردار کب بے نقاب ہونگے اور کیا پر امن شہریوں پر بے رحمانہ تشدد کرنے والا سب انسپکٹر عادل تعلقات کے سبب بجال ہو جائے گا ایک ماہ بعد کیونکہ ہماری یاداشتیں کمزور ہوتی ہیں جلد بھول جاتے ہیں ایک سال قبل تھانہ گوجر خان کے حوالات میں پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والا شہری الیاس بٹ کا کیا بنا ۔۔؟ کلر روڈ پر لندن سے آنا والے ٹکا خان کیس کا کیا بنا جو لوٹ گیا گن پوائنٹ پر ؟ سی پی او ضلع راولپنڈی پر تمام نظریں مرکوز ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں پولیس فورس کو عوامی خواہشات و وزیر اعظم کے ویثرن کے مطابق بنانے کے لئے ؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں