دنیا بڑی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔یہ افسوس ناک اتفاق ہے کہ دنیا میں ایسے حکمران تخت نشین ہو رہے ہیں جن کی افتاد طبع ہی تعصب پہ ہے۔نسلی و مذہبی،لسانی و علاقائی اور قبائلی تعصبات دنیا کو خطرات کا میدان بنا چکے ہیں۔دنیا کے فیصلہ ساز ممالک بھی نہیں چاہتے کہ ترقی پذیر و ترقی یافتہ ممالک میں دہشت گردی اور موت کا خوف ختم ہو۔ جنگ ہی عالمی سامراجی اداروں کے مفاد میں ہے۔جب سے انسان نے دنیا پہ قدم رکھا ہے البتہ جنگ اور قتل و غارت گری اسی دم سے اس کے ساتھ آئی ہے۔تاریخی تجزیات مگر کالم کے کم سن دامن میں کہاں سما سکتے ہیں، البتہ کچھ معروضات،چند جملے جن سے بات سمجھنے میں آسانی رہے۔شام سے عراق تک ایک خون آشام وقت ٹھہر سا گیاہے،افغانستان،لیبیا،یمن سب ایک دوسرے کے درپئے ہیں۔ کیا کشمیر اور فلسطین کو انسان بھول جائے؟کہا جاتا ہے کہ دنیا کے امن کی کنجی فلسطین و کشمیر کے امن سے ہے۔ اس بات سے اتفاق ہے۔خطے میں بھارتی اجارہ داری کے خواب کے تکمیل کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔،بھارت کی افغانستان کے راستے پاکستان مخالف سرگرمیاں،بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاروں کی اعلانیہ پشت بانی اور یہ شعوری کوشش کہ پاک فوج کو افغانستان کے ساتھ مل کر مشرقی و مغربی دونوں محاذوں پر مصروف رکھا جائے تا آنکہ فوج میں اکتاہٹ کا احساس پیدا ہو جائے۔بعض تجزیہ کار دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ جب بھی میاں نواز شریف کی حکومت پہ بھاری وقت آتا ہے تو لائن آف کنٹرول پہ مودی سرکار ان کی مدد کو آتی ہے۔ میں مگر اس سازشی تھیوری کو تسلیم کرنے سے رہا۔ میرے پاس اس سازشی تھیوری کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی شواہد نہیں، تا آنکہ کچھ صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کی ٹیبل سٹوری ۔ہمیں مگر چیزوں کو ان کی اصل کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔اگر تو اس ایک واقعے کو لیا جائے کہ مودی لاہور میں میاں نواز شریف صاحب کے ذاتی مہمان بنے،میاں صاحب نے ساڑھیاں تحفے میں بھجوائیں،تو بادشاہوں کی تاریخ اور سفارتی آداب تو یہی ہیں کہ جب دو بادشاہ یا ان کے نمائندے ملتے ہیں تو تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔مودی سرکار کا ،رائے ونڈ چلے آنا اور میاں صاحب سے خوش گپیاں کرنا قابل فہم ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی کشیدہ و رنجیدہ تعلقات ہیں۔بات چیت نہیں ہوگی تو برف کیسے پگھلے گی؟سب کچھ ممکن ہے مگر منتخب وزیر اعظم کی حب الوطنی پہ شبہ پرلے درجے کی کم مائیگی ہے۔وزیر اعظم نے بہر حال سیاسی انداز میں ہی بات کرنی ہے نہ کہ حافظ سعید کے انداز میں۔وزیر اعظم کی کشمیر پالیسی پہ البتہ اختلافات موجود ہیں۔کرپشن ایک الگ سے ایشو ہے اور وزیر خارجہ کا نہ ہونا ایک اور دکھ۔مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔کشمیر بر صغیر کی تقسیم کا ایک ایسا ثبوت ہے جو انگریز کی چالاکی،تعصب اور ہندو نوازی کا کھلم اظہار ہے۔تاریخ کے پہیے کو واپس نہیں موڑا جا سکتا۔ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ اپنے شروع دن سے ابھی تک کبھی بھی حل ہونے کے قریب نہیں آیا۔ البتہ اس اہم اور نازک ترین مسئلے پر اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی فورمز کی قراردادیں موجود ہیں،بھارت جن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے۔بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہے۔دونوں ممالک اس خطے پر اپنا حق جتاتے ہیں اور یہی حق کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔چاہیے تو یہ کہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے۔بھارت مگر اس حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو بزور دبانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔کیا بھارتی مظالم سے لاکھوں کشمیریوں نے شہادت کو گلے نہیں لگایا؟ کیا بھارتی فوج کشمیری خواتین کی عزتیں پامال نہیں کر رہی؟کیا کشمیری بچوں پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کر دیے گئے؟ کیا پورا خطہ کرفیو کے خوف میں سانسیں نہیں لے رہا؟مودی اس خطے کا ٹرمپ ہے اور ٹرمپ امریکہ کا مودی۔بھارت گذشتہ کئی سالوں سے گاہے بگاہے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے۔لیکن اوڑی سیکٹر پر ہونے والے حملے کے بعد،جس کا الزام بھارت نے حسب سابق پاکستان پر لگایا تھا، بھارتی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے احتجاج اور جوابی کارروائی کے باوجود بھارت نہ صرف باز نہیں آرہا بلکہ اب تو بھارتی فوجی، مسافر بسوں ،نہتے شہریوں اور زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسز کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ روش خطے کو بڑی اور غیر روایتی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ بھارت کی سی پیک کو ناکام کرنے کی خواہش بھی اپنی جگہ جارحیت کی وجہ ہے، اور یہ وجہ کہیں خطے سمیت پوری دنیا کو ہی زندگی سے محروم نہ کر دے۔دنیا کے فیصلہ ساز اداروں اور ملکوں کو فوری طور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی،تعصب،علاقائی و مذہبی تقسیم کو روکنے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے امن کے فروغ کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہی انسانیت اور آنے والی نسلوں کے مفاد میں ہے۔{jcomments on}
74