97

بلدیات جمہوریت کی نرسری/ثاقب شبیر شانی

بارش کے موسم میں آپ نے کسی تا لا ب یا ندی کنارے کھڑے ہو کر دمشاہدہ کیا ہو گاکہ بارش کی بو ندیں جب پانی کی سطح سے ٹکراتی ہیں تو دائرے کی شکل میں ایک لہر اٹھی ہے جو پھلتی چلی جاتی ہے اس عمل کو اردو میں ا رتعاش اور انگریزی میںRipple Effect کہتے ہیں جمہوریت کے نظام کی وضاحت کرنے کہ لئے اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں جب عوام ووٹوں کے ذریعہ پہلی بوند برساتی ہے تو ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس بوند سے ملک کی ترقیi ور ان کی زندگیوں پر طاری جمہودٹوٹ جائے گا اور اس سے پیدا ہونے والے جمہوری ارتعاش سے جمہوریت کے ثمرات کناروں تک پھیل جائیں گئے اور انہیں ان کے حقوق دہلیز پر پہنچا دئیے جائیں گے سوچ کی اڑان اپنی جگہ حقیقت کے دشت میں سبزازار نہیں ہوا کرتے۔ آمریت سے کھینچ تان کر ملک کی گاڑی کوجمہوریت کی پٹڑی پر ڈالنے والے اکثر اس گاڑی میں بلدیاتی ایند ھن ڈالنا بھول جاتے ہیں موجودہ حکومت کو وجود میں اڑھائی سال ہونے کو آئے جو اس جمہو ری حکومت کی نصف زندگی بنتی ہے مگر بلدیاتی انتخاب ہیں کہ ہوکے نہیں دے رہے بلوچستان اور کے پی کے اس عمل سے گزر چکے جہاں تبدیلی اور مخلوط حکومتوں کا قیام ہے مگر پنجاب اور سندھ جو جمہوری شہداء ااور غازیوں کے خطے ہیں یہاں کوئی نہ کو ئی مسئلہء بلدیاتی انتخاب کے عمل میں مانع ثابت ہو ہی جا تا ہے گو کہ اب بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمشن کی جانب سے اعلان ہوا ہے مگر اعلانات تو پہلے بھی ہوئے پہلے بھی بلدیاتی امیدواروں نے لنگوٹے بھی کس لئے تھے پہلے بھی کاغذات نا مزدگی بمعہ سرکاری فیس جمع کروائے گئے تھے مگر الیکشن ملتوی ہو گئے اس بار بھی ہو سکتا ہے ملکی صورتحال جو سیلاب جیسی قدرتی آفت کے سبب واقعتاََ تشویش ناک ہے بلدیاتی الیکشن ملتوی ہو جائیں کہ یہی الیکشن کمشن جو عام حالات میں بھی اکثر بے بس دکھائی دیتا ہے کس طرح ان ہنگامی حالات میں الیکشن کروائے گا؟ میرا خیال ہے بلدیاتی امیداروں کی خفت میں اضافہ ہونے والا ہے بحرحال الیکشن جب بھی ہوں امیدوار اکثر اپنی جما عتوں اور حکومتی کار کردگی پر عوام سے ووٹ کا سوال کرتے ہیں اس حوالے سے تبصرے کا دائرہ کا ر اپنے حلقے تک محدود رکھوں گاتحصیل کلر سیداں دو حلقوں میں بٹی ہوئی ہے پانچ یونین کونسل حلقہ این ۔ اے 52 اور پی پی 5میں شامل ہیں اس حلقے کے لیگی امیدوار ں کے لئے صواتحال تشویشناک نہیں بلکے حوصلہ افزا ہے کیونکہ ان یونین کونسلز میں اس حلقے سے منتخب ہونے والے ایم این اے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی خصوصی دلچسپی کے سبب اربوں روپے کے ترقیا تی کام ہو ئے ہیں اوران ترقیاتی کاموں اور ان یو نین کونسلزمیں مسلم لیگ (ن)کی تنظیمی کاردگی کا حوالہ دے کر بلاشبہ بلدیاتی ووٹ کا سوال کرنے کے مستحق ہیں یہاں ان کے مقابل پی ٹی آئی دیگر اتحاد اور آزاد امیدواران میدان میں اتریں گے بعض جگہوں پر دھڑا بندی بھی ہو چکی ہے مگر اس کا استعمال بہت کم ہے کیونکہ ان یونین کونسلز میں مسلم لیگی تنظیم کے رولز آف گیم بہت سلیقے سے اور وضاحت کے ساتھ بتائے جاتے ہیں اصل گھمسان کا رن ان چھ یونین کونسلز میں پڑے گا جو پی پی 2 این اے 50اور تحصیل کلر سیداں میں شامل ہیں وفاقی وزیر پڑولیم شاہد خا قان عباسی اور ایم پی اے راجہ محمد علی یہاں سے منتخب ہوئے، اس حلقے کے لیگی تنظیمی عہدیداران دونوں لیگی رہنماؤں کی ان چھ یونین کونسلز میں عدم توجہ کا شکوہ کرتے تھے اب کس طرح اسی عوام کے سامنے اپنی حکومتی پالیسیوں اور صوبائی وفاقی نمائندگان کی اس خطے سے محبت کے رومانی قصہ بیان کریں گئے سب سے دلچسپ صورتحال یونین کونسل کنوہا میں دیکھنے میں آ رہی ہے جہاں صرف مسلم لیگ (ن) کے چار پانچ گروپس آپس میں سنیگ پھنسائے کھڑے ہیں کسی کو شاہد خاقان کی حمایت حاصل ہے تو کوئی راجہ محمد علی کا حمایت یافتہ تو کوئی تحصیل صدر کے دست شفقت سر پر ہونے کا دعویدار بعض سیاسی اڑانوں کی افواہیں بھی باز گشت کر رہی ہیں مزید یہ کہ بلدیاتی حلقہ بندیوں میں نئی یونین کونسل بھلاکھر تخلیق کی گئی تھی جس میں کچھ حصہ یو نین کونسل کنوہا سے منقطع کر کے شامل کیا گیا تھا اس مسئلے پر بھی دو مسلم لیگی دھٖڑوں میں بات قانونی چارہ جوئی تک گئی اور یونین کونسل بھلاکھر کے قیام کا عمل پایاء تکمیل تک نہ پہنچ سکا ۔ماضیء قریب میں راقم نے یونین کونسل کنوہا سے مسلم لیگ (ن)صدر سید شہاب ثاقب شاہ کا انٹر ویو کیا دوران گفتگو شاہ جی سے جب آمدہ بلدیاتی انتخاب بارے سوال کیا تو شاہ جی نے جواب دیا کہ اس یونین کونسل میں مسلم لیگ کا مقابلہ صرف مسلم لیگ سے ہو گا موجودہ صورتحال کو دیکھ کر میں ان کے جواب کی صداقت پر یقین کر نے مجبور ہوں{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں