131

بلبل پاکستان‘ فرعانہ عنبر

اردو غزل میں آج بھی کچھ شعراء ایسے ہیں جنھوں نے خوبصورت الفاظ کے ساتھ ساتھ غزل کو موضوعاتی سطح پر زندہ رکھا اور غزل کے ان شعراء میں ایک نام فرعانہ عنبر کا ہے آپ نے حمد‘نعت‘منقبت‘غزل اور نظم میں طبع آزمائی کی۔نعت کے حوالے سے آپ نے مقابلہ جات میں صف اؤل کی حیثیت اختیار کی۔آپ گوجرانوالہ میں 18 اگست 1981 کو پیدا ہوئیں۔آپ کے گھر کا ماحول ادبی تھا آپ کے دادا نصیر احمد ناصر ایک اچھے شاعر تھے آپ کی والدہ شعبہ تدریس سے وابستہ تھیں ان دونوں شخصیات کی وجہ سے آپ کو ادبی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے آپ شاعری کی طرف راغب ہوں۔آپ سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔ بچپن سے جوانی تک زندگی کا مختصر خلاصہ بیان کرتے ہوئے اانہوں نے بتایا کہ میں نے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی‘ میری والدہ سرکاری ٹیچر تھیں اور والد محکمہ اصلاح قیدیاں میں ڈائریکٹر تھے۔

گریجوایشن گوجرانوالہ سے کی جبکہ ایم اے ایم ایڈ لاہور ایجوکیشن کالج برائے خواتین سے کیا۔اس دوران شاعری،موسیقی اور نعت پڑھنا جاری رہا۔نعت الحمداللہ بچپن سے پڑھ رہی ہوں اور بے شمار انعامات بھی جیتے۔سکول کالج سے لے کر ایم ایڈ تک تمام نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کی اور اسی طرح گلوکاری میں بھی ہمیشہ پہلا انعام جیتا۔میرے دادا نصیر احمد ناصر بہت اچھے شاعر تھے۔وہ ایک علمی و ادبی شخصیت تھے۔گورنمنٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور پانچ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ان کا کلام اس وقت کے اخبارات و رسائل میں باقاعدگی سے چھپتا رہا۔میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے انکی صحبت میں بہت کچھ سیکھنے کوملا۔

میرے دادا سب بچوں کو اکٹھا کر کے اکثر ہمیں کہتے کہ تم سب چاند کو دیکھو اور سوچو کیا تمہارے ذہن میں آ رہا ہے پھر مجھے بتاؤ۔تو ہم سب اپنی سی کوشش کرتے تھے اور الحمداللہ مجھے ہمیشہ شاباش ملتی تھی بلکہ انہوں نے میرے والد سے کہنا کہ مجھے لگتا ہے میری بیٹی فرحانہ میرے کام کو آگے لے کر جائے گی۔مجھ سے نعت بہت شوق سے سنتے تھے اور پھر اس وقت ٹیلی ویژن پر جو غزلیں گائی جاتی تھیں وہ بھی میری آواز میں سنتے۔انہیں میری آواز بے حد پسند تھی۔تو شعرکہنے کا سلسلہ گھر سے ہی شروع تھا غزل میرا پہلا عشق ہے تب سے جب یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ غزل کسے کہتے ہیں۔ہوش سنبھالتے ہی مہدی حسن، جگجیت سنگھ اور چترا کو بہت زیادہ سنا اور نہ صرف سنا بلکہ سیم ٹو سیم سب کو گایا بھی تو غزل نے مجھے آغاز سے ہی اپنے حصار میں جکڑ لیا تھانظم بہت کم کہی کیونکہ زیادہ رجحان ہی غزل کی طرف ہے بچپن سے بہت اہم سوال ہے

یہ سب سے پہلے تو اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ آپ کو شعر و شاعری کی دولت ورثے میں ملے۔آپ کے فطری رجحانات میں یہ شامل ہوجاتی ہے تو یہ بہت بڑاپلسپوائنٹ ہے۔آپ کے اردگرد کا ماحول بہت اہم ہے آپ کے لیے۔کیونکہ اس طرح کا ادبی ماحول آپ کی قدرتی صلاحیت کو مزید جلا بخشتا ہے ہر شاعر کی اپنی شعری جہتیں ہوتی ہیں میں نے اپنے ارد گرد کے مسائل معاشرتی معاملات محبت وصال جد ائی غربت رشتوں کا تقدس ان معاملات پر زیادہ لکھا ہے بہت اہم سوال ہے یہ سب سے پہلے تو اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ آپ کو شعر و شاعری کی دولت ورثے میں ملے۔آپ کے فطری رجحانات میں یہ شامل ہوجاتی ہے تو یہ بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے۔ میری شادی 2002 میں ہوئی اور الحمداللہ چار بیٹے علی رضا‘ حافظ عبدالرحمن‘عبداللہ‘عبدالہادی ہیں گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہے لیکن علم و ادب کی پیاس،جستجو اور لگن کے ساتھ ہی یہ سب ممکن ہوتا رہتا ہے۔ اب جیسے میرا بڑا بیٹا پیدائشی معذور ہے وہ ہل کر کروٹ بھی نہیں لے سکتا۔مجھے اس کی دیکھ بھال کے لیے سب دنیا داری چھوڑنی پڑی۔اب یہاں میرے شوہر کا تعاون بہت اہم ہے

انہوں نے جب اس چیز کو دیکھا تو محسوس کیا کہ ایک تخلیق کار کا ایک شاعر کا تخلیقی سفر رکنا نہیں چاہیئے تو یہاں انہوں نے ہر قدم پر میرا پورا ساتھ دیا۔جب کوئی مشاعرہ ہو تو وہ گھر بڑے بیٹے علی کی دیکھ بھال کے لیے گھر اس کے پاس رک جاتے ہیں اور مجھے اپنی علمی و ادبی تسکین کے لیے تھوڑا وقت دیتے ہیں۔تو آج میں جہاں ہوں بے شک اللہ کے کرم کے بعد اپنے والدین کی دعاؤں کے بعد اپنے شوہر کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ہوں۔اور الحمداللہ میری فیملی بہت ساتھ دیتی ہے میراتو ان سب سے پھر ادبی سفر جاری رہتا ہے۔آپ کے ساتھ اپنی فیملی کا ساتھ بہت ضروری ہے اور میں اس سلسلے میں بہت خوش قسمت ہوں۔ بہت سے نقاد میری شاعری پر آرٹیکل لکھ چکے ہیں۔مختلف اخبارات ورسائل میں میرا کلام باقاعدگی سے چھپ رہا ہے۔بہت سے چینلز اور اخبارات انٹرویو کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔میری کچھ غزلیں بہت اچھے سنگرز گا چکے ہیں۔میری کہی ہوی نعتیں نعت خوان بچے بچیاں پڑھ چکے ہیں

پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف ریڈیو پروگرامز میں میرا کلام منتخب کیا جاتا ہے اور پڑھا جاتا ہے۔میری آواز اور ترنم کو دوسرے ممالک میں بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے الحمداللہ اور میری خوش قسمتی ہے کہ موسیقی کا بہت بڑا نام استاد غلام عباس صاحب نہ صرف میرے پروگرام میں تشریف لائے بلکہ مجھے بلبل پاکستان کا خطاب بھی دیا جو میں سمجھتی ہوں میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔چار شعری مجموعے،انتخاب،چھپ چکے ہیں دشت دروں، حسن انتخاب، سانجھیاں سوچاں،کتاب پر کام ہو رہا ہے ان شاء اللہ جلد منظر عام پر آ جائے گا۔الحمداللہ میرے اردگرد کا ماحول ادبی ماحول ہے۔میرے شوہر میرا نیا کلام سنتے ہیں پڑھتے ہیں۔ اور ہم اس پر گفتگو بھی کرتے ہیں۔

مادری زبان میں شاعری کی ہے میرے پنجابی قطعات اور غزلیات سوشل میڈیا اور مختلف رسائل و جرائد میں موجود ہیں۔بلکہ پنجابی غزلوں کو بھی اردو کی طرح ترنم میں گایا ہے۔ خاتون ہونے کے ناطے میں پروین شاکر کی شاعری سے بہت متاثر ہوں۔پروین شاکر کی شاعری نسای جذبات کی عکاسی کرتی ہے ان کے علاوہ مرزا غالب اور احمد فراز میرے پسندیدہ شاعر ہیں غالب کی تراکیب اور استعارات اور فراز کی رومانوی شاعری سے بہت متاثر ہوں۔
تازہ کلام
غزل
خواب سہانے بیچ رہی ہوں
گیت پرانے بیچ رہی ہوں
ٹوٹی آس امید کے ٹکڑے
دو دو آنے بیچ رہی ہوں
غزلوں کا بیوپار کیا ہے
اور کچھ گانے بیچ رہی ہوں
میں ہوں مالک بس اک پل کی
اور زمانے بیچ رہی ہوں
کوئی میری آنکھیں لے لے
یہ میخانے بیچ رہی ہوں
؎میرے اپنے ہاتھ ہیں ٹھٹھرے
اور دستانے بیچ رہی ہوں
خوشیوں کے بازار میں عنبر
اشک خزانے بیچ رہی ہوں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں