173

بلاعنوان/محمد اعظم احساس

پچھلے اتوار پندی پوسٹمیں بھائی عامر ملک کا لکھا ہوا کالم ’’ہے کوئی بیر بل جیسا‘‘ پڑھا اپنی کم علمی اور تاریخ ہند سے مکمل ناواقفیت پر افسوس بھی ہوا میں 1983ء میں بی اے پنجا ب یونیورسٹی سے کیا تھا ۔جس میں تاریخ ہندو پاک بطور آپشنل مضمون پڑھی ۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تاریخ میں شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نورتن کا ذکر ملتا ہے جن میں بلاشبہ بیر بل(جوکہ ہندو تھا) ملا دو پیازہ اور ابو الفضل کے نام آتے ہیں یہ چند اور دوسرے وزیر و معتبر یقیناًجلا ل الدین اکبر کے نورتن میں شامل ہوتے ہیں مگر ان کے کارنامے ہمیں خال خال ہی ملتے ہیں جہاں تک مذکورہ حکایت جسے عامر ملک صاحب نے اپنے مضمون ہے کوئی بیر بل جیسا میں شامل کیا ہے کم از کم میری نظر سے تو نہیں گزرا البتہ اس سے ملتی جلتی حکایت جب میں ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑتا تھا تو کسی سے سنی تھی جس میں بیر بل کے بجائے ملا دو پیازہ کی فہم فراست اور دانائی ملتی ہے اکبر کے یہ نورتن جن میں بیر بل ہندو تھا اور ملا دوپیازہ مسلمان ان کے بارے میں جو حکایت میں نے سنی تھی وہ کچھ یوں ہے۔ ایک دفعہ شہنشاہ جلال الدین اکبر شکار سے واپس آرہا تھا جاڑے کا موسم تھا سخت سردی پڑھ رہی تھی بادشاہ کو واپسی پر رات ہوگئی اس کے یہ دونوں نورتن بھی اس کے ساتھ تھے اس قدر سخت موسم کو دیکھ کر بادشاہ نے کہاکہ کوئی انسان اتنے سرد موسم میں رات پانی میں گزار سکتا ہے جبکہ اس کو کسی آگ کی تپش کا سہارا میسر نہ ہو بیر بل نے کہا حضور یہ کام ایک انسان کے لیے ممکن نہیں جبکہ ملا دوپیازہ نے عرض کی حضور مجبوری انسان سے بڑے بڑے نا ممکن کام کرو ا دیتی ہے لہذا ایسا ممکن ہے بادشاہ نے انسانی ہمت اور حوصلے کو آزمانے کی خاطر ایک تالاب بنوایااور شاہی اعلان کیا کہ جو شخص تالاب مین بغیرآگ سیکے رات گزارے گا اس سے بادشاہ سلامت بیش بہا انعامات سے نوازیں گے۔ایک غریب آدمی جو سخت فاقوں کی زد میں تھا اس نے یہ چیلنج سوچ کر قبول کر لیا کہ روز روز کی فاقہ کشی سے موت بہتر ہے بادشاہ نے تالاب کے ارد گرد پہرے لگا دئیے کہ کوئی آدمی حرارت حاصل نہ کر سکے اور ساری رات پانی میں گزارے اس آدمی کو سر شام ہی تالاب میں اتار دیا گیا آخر تھا تو انسان تھوڑی دیر بعد کانپنا شروع کر دیا اسے دور رات کی تاریکی میں کہیں کسی مزار پر دیپ جلتا ہوا دکھائی دیا اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس جلتے ہوئے دیپ کی طر ف کر دئیے اور تصور کر لیا کہ وہ آگ تاپ رہا ہے اور یوں صبح ہو گئی۔صبح سویرے بادشاہ اپنے نور تنوں سمیت جن میں بیربل اور ملا دوپیازہ بھی شامل تھے قریب آئے اور اس آدمی کوسلامت باہر نکال لیا بیربل کو جب معلوم ہوا کہ اس شخص نے دور جلتے ہوئے دیپ کے سہارے رات گزار دی تو ا س نے بادشاہ سے کہا حضور بات تو ایک ہی ہے تصور میں ہی سہی لیکن آگ تو اس نے تاپی لہذا بادشاہ نے اس غریب کو انعام نہیں دیا وہ آدمی ملاد وپیازہ کے پاس گیا اور ملا نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی مدد کرے گا اور اسے انعام دلوائے گا اگلے روز بادشاہ نے دوبارہ شکار ککا پروگرام بنایا اور ملا کو اطلاع دی کہ وہ تیار ہو جائے ملا نے کہا حضور کھانا پک رہا ہے تھوڑی دیر بعد آتا ہوں ،جب کافی دیر گزر گئی تو بادشاہ نے بیربل کو بھیجا کہ ملا کو بلا کر لے آئے بیربل جب واپس آیا تو اس نے بادشاہ کو بتایا حضور ملا پاگل ہو گیا ہے اس سے چھت کے اندرونی حصہ میں ہنڈیا کو شہتیر کے ساتھ اونچا کر کے لٹکایا ہواہے اور نیچے آگ ملا کر اسے پکا رہا ہے بادشاہ یہ سب سن کر حیران ہوا اور یہ سب تماشا دیکھنے خود اس کے گھر چلا گیا اس نے جب یہ دیکھا تو کہا کہ ملا کیا تم پاگل ہو گئے ہو تم نے ہنڈیا کو چھت پر باندھا ہوا ہے اور نیچے زمین پر آگ جلا کر اسے پکا رہے ہو ملا نے عرض کیا حضو ر اگر کوسوں دور جلتے ہوئے دیے کی تپش سے آدمی رات آگ تاپ سکتا ہے تو ہنڈیا تو چند فٹ دور ہے یہ تو پک جائے گی یوں بادشاہ کی سمجھ میں ساری بات آگئی اور یوں اس غریب آدمی کو انعام و اکرام سے نوازا اور بیربل کی سبکی ہو گئی۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں