اپنی برتری اور شان وشوکت کو قائم رکھنے کے لیے طاقت ور لوگ ہمیشہ اپنی پسند کے اصول اور ضابطے وضع کرتے ہیں اپنے مفادات کی خاطر غلط کو صیح اور صیح کو غلط ثابت کرنا
ان کی فطرت خاص بن جاتی ہے وہ صرف اپنے مالی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کبھی کسی ٹھوس پتھریلی زمیں پر اترنا
ان کی قسمت میں نہیں ہوتا لیکن مفادات کے اسیر لوگ ان کو خاردار راستوں کا مسافر بنا دیتے ہیں۔جو تن آ سانی کے قائل ہوتے ہیں وہ محنت سے جی چراتے ہیں ایسے لوگ دوسروں کے مال پر نظریں گاڑھے رہتے ہیں اور موقع محل دیکھ کر ہاتھ صاف کر گزرتے ہیں۔زندگی کے کسی نہ کسی محاذ پر بساط بھر جنگ سے ہر شخص کو ہی نبردآزما ہونا پڑتا ہے
بعض اوقات یہ جنگ کرتے لڑتے وجود ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتاہے میری اس تحریر کا محور بھی ایک ایسی ہی خاتون ہیں جو اپنے حق کے لیے مسلسل جنگ لڑی رہی ہیں۔گزشتہ روز پنڈی پوسٹ کے گروپ میں ایک دوست کی برطانیہ سے آئی جسوالہ کلر سیداں کی رہائشی ایک خاتون کے انٹرویو پر مبنی ایک وڈیو نظر سے گزری جس میں لبنی راشد نامی خاتون اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنا رہی ہیں۔
خاتون کے مطابق کلر سیداں کے ایک شخص نے ان کے آ باؤ اجداد کی جدی ڈیڑھ سو کینال زمین پر قبضہ کرلیا ہے جو زمین اس کے آ باؤ اجداد نے 1965میں خریدی تھی اور 2022 تک اس زمین کا قبضہ ان کے پاس تھا وہ زمین انہوں نے کسی شخص کو کاشت کے لیے دی رکھی تھی اور وہ لوگ ایک طویل عرصہ سے اس زمین کو۔سنبھال رہے تھے
اور ہم ان سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔خاتون نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جسوالہ میں انہوں نے اپنا مکان (کوٹھی) کسی پٹھان کو بغیر کرایہ رہائش کے لیے دے رکھا تھا جس کو زمین پر قبضہ کرنے والے شخص نے 50ہزار کا لالچ دے کر اس سے مکان کا قبضہ لیا
اور میرے بھائی کو ساتھ ملا کر اس گھر کے اندر توڑ پھوڑ کی اور ساز وسامان اٹھا لے گئے۔خاتون کے مطابق برطانیہ سے واپس آ نے پر اس نے کلر پولیس اسٹیشن میں ملزمان کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست جمع کروائی جس پر پولیس نے مخالفین کی ایماء پر کاروائی سے گریز کیا گریز کی وجہ یقیناً رشوت ہوسکتی ہے۔
خاتون کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا جہاں سے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری ہوئے تاہم پھر بھی کلر پولیس نے صبح سے شام تک مجھے بیٹھائے رکھا اور اندراج مقدمہ کے بعد مجھے کہا گیا کہ اس پرچے کو ہم خارج کردیں گے اور پھر یونہی ہوا خاتون کا کہنا تھا
کہ قبضہ کرنے والے افراد پولیس سے ملکر اس پر مسلسل جھوٹے پرچے دے رہے ہیں اور وہ اٹھ روز لاک اپ بھی رہی ہیں۔خاتون کی روداد سن کر اپنے نظام انصاف پر دکھ ہوتا ہے
پولیس کا کردار تو ہمیشہ سے گھناؤنا رہا ہے پولیس پنجاب کی ہو کسی دوسرے صوبے کی کردار ایک ہی جیسا ہوتا ہے یعنی ظالم سے پیسہ لو اور مظلوم کو دباؤ اس کیس میں بھی کلر سیداں پولیس کا کردار کسی طور قابل تعریف نہیں۔کیونکہ وڈیو میں موقع پر موجود افراد کی گواہی ہے
کہ جب مکان توڑا جارہا تھا توموقع پر موجود ہونے کے باجود پولیس نے مکان کے اندر جا کر کاروائی سے گریز کیا۔کیا اس۔قوم کے مقدر میں یہی لکھ دیا گیا ہے کہ طاقت ور اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگ دوسروں کے مال کو یونہی لوٹتے رہیں گے
اور حکمران و منصف اپنے اپنے عشرت کدوں میں چین کی بنسریاں بجاتے رہیں گے یہ کب تک ہوتا رہے گا لوٹ کھسوٹ کو اپنا مورثی حق سمجھنے والے مکافات عمل کے اصول کو کب سمجھیں گے جب گرفت کا نقارہ بجے گا تو لوٹ کامال اور مسندوں کا گھمنڈ کسی کے کام نہیں آئے گا۔
کلر سیداں پولیس اگر اس خاتون کو انصاف نہیں دلا سکتی تو کم ازکم اس کے مخالفین کی پشت پناہی نہ کرئے۔معاملہ کورٹ میں ہے وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ 1965 سے 2022تک جن کے قبضہ تھا وہ اس زمین کے مالک ہیں یا 2023 میں آنے والے حقدار ہیں۔