پروفیسر محمد حسین/وفاقی حکومت نے وزیر اعظم وزیروں‘مشیروں اور معاشی ٹیم کی زیر نگرانی آئندہ مالی سال 2020-21کے لیے 7294.9ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کردیا جس میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 3700ارب روپے اور اخراجات کا تخمینہ 7137ارب روپے لگایا گیا ہے اس بجٹ میں 3437ارب روپے کا خسارہ بجٹ ظاہر کیا گیا ہے جو کہ جی ڈی پی کا سات فیصد ہے اس بجٹ میں تعلیم کے لیے تیس ارب روپے‘صحت کے لیے بیس ارب روپے اور خوراک و زراعت کے لیے بارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں 1951کے بجٹ میں خسارہ بجٹ ظاہر نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت کوریا کی جنگ جاری تھی اور اس جنگ کی وجہ سے 1951میں ہمارا بجٹ سرپلس ہو گیا تھا ملکی ترقی کا انحصار تعلیم کے فروغ پر ہو تا ہے حکومت نے تعلیمی ترقی کے دعووں کے برعکس شعبہ تعلیم کے لیے بہت ہی کم رقم مختص کی ہے اور اس طرح شعبہ تعلیم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے شعبہ تعلیم کو اول نمبر پر ترجیح دینے والے برسراقتدار طبقہ نے اس شعبہ کو آخری ترجیح بھی تصور نہ کیا اور اس حکومت نے برسر اقتدار آنے کے لیے عوام کو خواب دکھائے تھے کہ ہم بر سر اقتدار آکر تعلیم اور صحت کو ترجیح دیں گے لیکن برسر اقتدا ر آنے کے بعد تعلیم اور صحت کا استحصال کیا جارہا ہے حکومت کے ان اقدامات سے شعبہ تعلیم تنزلی کا شکار ہو رہا ہے جس سے جہالت میں اضافہ ہو گا اور ضرورت اس بات کی ہے کہ شعبہ تعلیم اور صحت اور زراعت کے لیے فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور ان شعبوں میں قابل قدر اصلاحات کی جائیں اور ان محکموں میں نئی پالیسیوں کا اعلان کیا جائے اسی طرح صوبہ پنجاب کا بجٹ بھی وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیروں مشیروں کی زیر نگرانی 2440ارب روپے کے حجم کا بجٹ پیش کیا گیا ہے اس بجٹ میں بھی خسارہ ظاہر کیا گیا ہے یعنی کہ پنجاب حکومت کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ظاہر کیے گئے ہیں فیڈرل بجٹ اور پنجاب بجٹ دونوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں سالانہ اضافہ نہیں دیا گیا ہے جو کہ سراسر ظلم اور نا انصافی کے مترادف ہے اس میں ملازمین میں افراتفری بددلی اور مایوسی کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور مزید یہ کہ حکومت کے اس اقدام سے رشوت بدعنوانی کرپشن اور کام چوری میں اضافہ ہو گا اور اس میں ملازمین کے چولہے ٹھنڈے ہو جانے کا بھی احتمال پایا جاتا ہے یادرہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں سالانہ اضافہ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ ہے اس سلسلے میں کورونا وائرس کا بہانہ بنا یا گیا ہے جبکہ کورونا وائرس کو آئے ہوئے صرف تین ماہ ہو ئے ہیں اور اسے پہلے کے نو ماہ میں کورونا وائرس کا وجود نہیں تھا دوسری بات یہ کہ کورونا وائرس کا اثرصرف سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین پر ہی کیوں ڈالا گیا ہے کہ ان تنخواہوں اور پنشن میں سالانہ اضافہ روک دیا گیا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ اور پنجاب گورنمنٹ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کا اعلان کریں اس وقت ملک میں ضرورت کی تمام اشیاء بہت ہی مہنگی فروخت ہو رہی ہیں جس کا اثر پاکستانی عوام پر پڑ رہا ہے اور خصوصا مقررہ آمدنی والے سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈملازمین اس ہو شربا اور کمر توڑ مہنگائی کے زیر اثر زیادہ پسے جارہے ہیں اس سلسلے میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن ارکان پر بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ آپس میں لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے کو طعنہ دینے اور پچھاڑنے کے بجائے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں سالانہ اضافہ دینے کے ضمن میں حکومت کو مجبورکریں کہ وہ اپنے پنشن کر وہ بجٹ پر نظر ثانی کر کے ملازمین کو ان کا جائز حق دیں امید ہے کہ حکومت مناسب اقدامات اٹھا کر سرکاری ملازمین کی بے چینی کو دور کرے گی اور یہ اقدام حکومت کے لیے قابل تحسین ہو گا۔
144