97

بجلی اور گیس کا بڑھتا ہوا بحران/ضیاء الرحمن ضیاء

جوں جوں گرمی بڑھتی جا رہی ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،وطن عزیز میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک مستقل مسئلہ ہے ،ماضی کی حکومتوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جسکی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا مگر موجودہ حکومت اسے حل کرنے کے لیے کچھ کوشش کر رہی ہے لیکن یہ مسئلہ اتنی جلدی حل ہونے والا نہیں لگتا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے 2018تک لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان تو کر دیا ہے اللہ کرے ایسا ہو بھی جائے لیکن یقین نہیں آتا کہ یہ مسئلہ 2018 تک بھی حل ہو جائے گا۔پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔شہری علاقوں میں شیڈول کے مطابق لوڈشیڈنگ 8سے10گھنٹے ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 14سے 18گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات شیڈول سے ہٹ کر بھی لوڈشیڈنگ ہوتی رہتی ہے جس کا کوئی وقت مقررنہیں ہے ، بسا اوقات یہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کئی کئی گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔اتنی طویل لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ لوگ آئے دن احتجاج کرتے نظر آتے ہیں،ابھی تو احتجاج روڈ بلاک کرنے تک ہی محدود ہے لیکن اگر یہی صورت حال بدستور جاری رہی تو خطرہ ہے کہ عوام جارحیت پر اتر آئیں گے اور وطن عزیزکو خدانخواستہ کوئی نئی پریشانی لاحق ہو جائے گی۔ گرمی کی شدت برداشت سے باہر ہے ایسی صورت میں اتنی طویل لوڈشیڈنگ کیسے برداشت کی جا سکتی ہے۔لوڈشیڈنگ کی بڑی وجہ بجلی کی طلب اور رسد میں بہت فرق ہے،بجلی کی کل پیداوارتقریباً سولہ ہزارآٹھ سو چھہتر میگاواٹ ہے جبکہ طلب تقریباً بائیس ہزار دو سو میگاواٹ ہے اور شارٹ فال تقریباًسات ہزار چوبیس میگاواٹ ہے۔ہمارے ملک میں کئی طرح کے پاور پلانٹس ہیں جو مل کر بھی بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے جبکہ کئی ممالک میں صرف ہوا سے چلنے والے پاور پلانٹس ہی اتنی بجلی پیدا کر رہے ہیں کہ وہ ہماری بجلی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ہمارے ملک کے کچھ علاقے ایسے ہیں جو دنیا کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہو تے ہیں ان علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ 18سے20گھنٹے تک جا پہنچتی ہے حالانکہ ان علاقوں کو سب سے زیادہ بجلی فراہم کی جانی چاہیے تھی۔رمضان المبارک میں تو حالت یہ ہے کہ ایک گھنٹہ بجلی ہوتی ہے اور آٹھ دس گھنٹے غائب رہتی ہے۔روزہ داروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے بجائے مزید مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔اسلام آباد کے ہی بہت سے علاقوں میں پہلے دوسرے اور آٹھویں روزے کو پورا پورا دن بجلی نہیں تھی اس کے علاوہ روزانہ مسلسل چار سے پانچ گھنٹے بجلی بند ہونا معمول بن گیا ہے لوگ روزہ رکھ کر انتہائی سخت گرمی برداشت کرتے ہیں ۔ جب ذمہ داران کو فون کیا جاتا ہے تو پہلے تو وہ فون ہی نہیں سنتے اگر سن بھی لیں توکہہ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ خرابی ہے اتنے گھنٹے لگ جائیں گے ،اب سمجھ نہیں آتی کہ روزانہ یہ خرابی کیوں بن جاتی ہے کوئی پائیدار کام کیوں نہیں کیا جاتا۔کم از کم لوگ رمضان کا مہینہ تو آرام سے گزار لیں۔اس کے علاوہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار جن عوامل پر ہوتا ہے ان میں صنعتیں سر فہرست ہیں لیکن ہمارے ملک میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے صنعتی ترقی بھی ناممکن ہوتی جا رہی ہے،طویل لوڈشیڈنگ کے باعث بہت سی صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس سے ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہی حال گیس کی لوڈشیڈنگ کا بھی ہے سردیوں میں تو گیس اتنی کم ہو جاتی ہے کہ چولہوں میں صرف نظر ہی آتی ہے بس اور کوئی کام اس کا نہیں ہوتا ہے نہ چولہے جلتے ہیں اور نہ ہی ہیٹر۔لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چلو سردیوں میں تو گیس کی لوڈشیڈنگ کی کوئی سمجھ آتی ہے کہ گیس کا استعمال زیادہ ہو جاتا ہے اس لیے گیس کم ہو جاتی ہے لیکن اتنی شدید گرمی میں گیس کی لوڈشیڈنگ سمجھ سے بالا تر ہے۔اتنی شدید گرمی میں تو کھانا بنانے کے لیے چولہا جلانا بھی مشکل ہوتا ہے ہیٹر اور گیزر کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتاپھر بھی اتنی لوڈشیڈنگ کہ کھانا بنانا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔کئی علاقوں میں روزانہ گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور لوگ ناشتہ کیے بغیر دفاتر جانے پر مجبور ہیں اسی طرح بچے بھی گیس نہ ہونے کی وجہ سے اکثردیر سے سکول پہنچتے ہیںیہی حال دوپہر کو بھی ہوتا ہے کہ جب سب واپس لوٹتے ہیں اور کھانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو جواب یہی ملتا ہے کہ گیس نہیں ہے۔ لوگ ہوٹلوں سے مہنگے داموں کھانا خریدنے پر مجبور ہیں لیکن ہر آدمی اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا کہ روزانہ بازار سے مہنگاکھانا خرید سکے یا گیس کے سلنڈر بھرا کر رکھ سکے۔اسی طرح بہت سی فیکٹریاں بھی گیس پر چلتی ہیں جو گیس نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوتی جا رہی ہیں جس سے معیشت کے کمزور پڑنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں مزدور بھی بے روزگار ہو رہے ہیں جن کے گھروں کا چولہاصرف ان فیکٹریوں کی تنخواہوں سے ہی چلتا ہے۔گیس کی کمی کی ایک بڑی وجہ گیس چوری بھی ہے بہت سے لوگ کروڑوں روپے کی گیس چوری کرتے ہیں اس سے گھروں میں استعمال کے علاوہ فیکٹریاں بھی چلاتے ہیں۔ایسے عناصر کو گرفتار کر کے عبرتناک سزا دینے کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اقتدار کے حصول کے خواب دیکھنا بند کریں اور اتفاق سے مل بیٹھ کر عوام کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کریں اور امریکہ کی طرف دیکھنا چھوڑیں اور چین اور جرمنی جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھائیں جو پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبوں میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان ممالک کی طرف سے کی گئی پیشکشوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے سے بجلی ، گیس اور پانی کے بحران پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں