بادشاہ سلامت کا دربار سجا ہے،بہت سے لوگ دربار میں جمع ہیں ،ایک ماہردست شناس بھی دربار میں حا ضر ہے جو ہاتھ کی لکیروں سے خوب آشنا ہے اور ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر بہت سے زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی تشریح کرتا ہے،آج بادشاہ سلامت نے اُسے اپنا ہاتھ دکھانے کے لیے طلب کیا ہوا ہے،تمام درباریوں پر سناٹا چھایا ہوا ہے اوربیتابی سے باد شاہ سلامت کی قسمت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ،بادشاہ نے دست شناس نجومی کو اپنے پاس بلایا اور اُس کے سامنے اپنے ہاتھ کر دِیا تا کہ وہ زندگی کے ماضی و مستقبل کے حالات پر روشنی ڈال سکے ،نجومی نے بادشاہ سلامت کے ہاتھ کا بغور جائزہ لیا اور مختلف پیشن گوئیاں کرنے میں محو رہا،بادشاہ سلامت اور تمام درباری بڑے سکون سے اُس نجومی کی باتیں سنتے رہے ،اب بادشاہ سلامت اپنی زندگی کی مدت جاننے کے لیے سوال کر بیٹھے،نجومی نے ہاتھ کی تمام لکیروں کو غور سے دیکھا اور جائزہ لیا ،دست شناس نجومی نے بادشاہ کو کہا ،حضور! آپ کا سارا خاندان آپ کے سامنے مرے گا یعنی آپ کے خاندان کے سب لوگ آپ کے سامنے مر جائیں گے،بادشاہ نے یہ سنتے ہی اس دست شناس نجومی کو قید میں ڈالنے کا حکم دِیا ،چنانچہ بادشاہ کے سپاہیوں نے اُس کو قید میں ڈال دیا،کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے ایک اور دست شناس نجومی کو دربار میں طلب کیا اور اپنا ہاتھ دکھایا ،اُس نجومی نے بھی بادشاہ کو بہت سی خوشخبریا ں سنانے کیساتھ کہا حضور! آپ کی زندگی آپ کے خاندان کے تمام افراد سے زیادہ ہے،یہ سنتے ہی بادشاہ نے اُسے انعام و کرام سے نوازہ اور بڑی عزت و توقیر سے اُسے رخصت کیا ۔
اب یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ پہلے دست شناس نجومی نے بھی کوئی بات بادشاہ کو غلط نہ کہی تھی ،اُس کے خاندان کا اُس کی آنکھوں کے سامنے مرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہ کی عمر لمبی ہے ،اور اُس کو سزا دی گئی،جب کہ دوسرے نجومی نے کہا کہ آپ کی عمر آپ کے خاندان کے تمام افراد سے زیادہ ہے اور اُسے انعام و اکرام سے نوازہ گیا ،عزت و احترام سے رخصت کیا گیا،واضح ہوا کہ بات کرنے کا سلیقہ ہی انسان کو عزت و احترام سے نوازتا ہے،اگر کسی کو کوئی یہ کہے کہ تیرا خاندان تمہارے سامنے مرے گا تو غصہ تو آئیگا،اور اگر کسی کو یہ کہا جائے آپ کی عمر آپ کے خاندان سے لمبی ہے تو خوشی و مسرت ہو گی ،انسان کے بات کرنے کا انداز انتہائی مہذب ہونا چاہیے،کسی بچے کو کہا جائے کہ اوئے!تیرا باپ کدھر ہے ؟تو بچے کا رویہ بھی آپ کیساتھ ایسے ہی ہو گا جیسے آپ نے اُس کیساتھ کیا،اگر کسی بچے سے پیار کیساتھ کہا جائے بیٹا !آپ کے ابو جان کہاں ہیں تو وہ بچہ بھی آپ کیساتھ مثبت رویہ رکھے گا اور بڑی شائستگی کیساتھ جواب دے گا،کسی بھی شخص کی زبان اُسے عزت و توقیر نصیب کرتی ہے اور ذلت و پستی کے گھڑے میں بھی پھینکتی ہے۔
گزشتہ دِنوں مختلف نیوز چینلز ،اخبارات اور سوشل میڈیا پر کراچی میں نجی ٹی وی کی ایک خاتون رپورٹر کو سکیورٹی گارڈ کا تھپڑ مارنے کی خبریں دیکھنے کو ملتی رہیں،مجھے اُس خاتون صحافی کیساتھ ہمدردی ہے کہ اُن کیساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا،سکیورٹی گارڈ کو خاتون کو تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا،دیگر عوام الناس کی اکثریت بھی لازماً خاتون صحافی سے ہمدردی ہی کر رہی ہے ، میں نے سکیورٹی گارڈ اور صحافی خاتون کی تکرار کا بخوبی جائزہ لیا ،حقیقت تو یہ کہ خاتون صحافی کا انداز گفتگو اچھا نہیں تھا ،وہ چلا چلا کر سکیورٹی گارڈ کو ڈانٹ رہی تھیں،اور سکیورٹی گارڈ دوسری طر ف جان چھڑا کر بھاگا تو خاتون صحافی نے اُس کو پکڑنے کی کوشش کی جس کا ردعمل انتہائی شرمناک صورت میں سامنے آیا،اب بحیثیت ایک عام شہری سوچا جائے اور اس واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو صحافی خاتون کے لیے اخلاق و انسانیت کی کچھ حدود و قیود تھیں ،وہ وہاں پر جج نہیں تھیں کہ کو ئی فیصلہ صادر کرتیں،اُن کا کام تھا کہ وہ رپورٹ بناتیں اور سکیورٹی گارڈ کے عوام کیساتھ ناروہ سلوک کو احکام بالا تک پہنچاتیں اور خود اُس کی تذلیل نہ کرتیں جس سے اُس کا غصہ نہ آتا اور تھپڑ نا مارتا،بحیثیت صحافی میں خاتون پر ہاتھ اُٹھانے کی پرزور مذمت کرتی ہوں اور احکام بالا سے اپیل کرتی ہوں کراچی میں نجی ٹی وی کی خاتون صحافی کے ساتھ ہونے والے واقعہ کی تحقیقات کی جائیں ۔
میں خود ایک ادنیٰ سی صحافی ہو ں اور پندرہ سال سے اس مقدس شعبہ سے وابسطہ ہوں،میں نے اکثر دیکھا کہ اس مقدس شعبہ سے وابسطہ چند لوگ انتہائی ہٹ دھرم اور نازیبا گفتگو کے مالک ہیں،جب اُن کے ہاتھ میں کیمرہ اور مائیک آجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو جج تصور کرنے لگتے ہیں اور فیصلے صادر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اس مقدس شعبہ سے منسلک افراد کو چاہیے کہ وہ سچائی کو سامنے لائیں اور اپنی تحریروں میں،خیالات میں افکار میں،تجزیات میں انداز بیان انتہائی مہذبانہ اختیار کریں تا کہ اس مقدس شعبہ کی لاج برقرار رہے،ایک صحافی کو قلم ،کیمرہ یا مائیک اُٹھانے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں،ہمیں اخلاق کے دائرے میں رہ کر صبر و تحمل،برداشت اور مثبت انداز کو اپنانا چاہیے،کسی کی عزت نفس کو اچھالنے کی بجائے انتہائی مہذب طریقے سے اُس کی خامیوں پر بحث کرنی چاہیے،صحافی ملک وقوم کا بہترین سرمایہ ہیں،مسائل کی تشریح کا خلاصہ اچھے و اعلیٰ الفاظ سے ہونا چاہیے،اور چیخنا،چلانا اور کسی دوسرے کی عزت پر حملہ کرنا اور اُس کو مجبور کر دینا کہ وہ آپ پر ہاتھ اُٹھائے ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے،تنقید برائے اصلاح کو مرکوذ خاطر رکھنا چاہیے اس سے نہ صرف ہم اچھے انداز عوامی مسائل حل کروا سکتے ہیں بلکہ لوگوں کی نظر میں بھی ہم معتبر ہوں گی اور عزت وتوقیر سے سرفرازی ہمارا مقدر بنے گی،اور عوام الناس کو بھی چاہیے کہ وہ شعبہ صحافت سے منسلک افراد کی عزت کا خیال کریں کیونکہ صحافت کی ہی بدولت معاشرتی،قومی ،ملکی،بین الاقوامی اور دیگر حالات سے لوگ آشنا ہوتے ہیں،صحافتی شعبہ ہی تو ہے جو چوک میں بیٹھے ایک بھکاری سے لیکر ایوانوں کی اندر بیٹھے حکمرانوں تک کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔{jcomments on}
kausarbatool4@gmail.com