بابا فضل الدین چشتی صابری کلیامیؒ 281

بابا فضل الدین چشتی صابری کلیامیؒ

سلسلہ صابریہ کے بانی حضرت شیخ علاؤالدین علی احمد صابرؒ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کا وجود مسعود رحمت خداوندی کا نمونہ تھا۔آپ حد درجہ صابر و شاکر اور قناعت پسند تھے۔ فقیرانہ طرزِ زندگی کو محبوب رکھتے تھے۔ بارہ سال تک آپ بابا فریدالدین گنج شکر کے لنگر خانے کے منتظم رہے، لیکن اذن صریح نہ ہونے کی وجہ سے آپ دن کو روزہ رکھتے اور کچھ اپنا انتظام کرکے رات کو اسی پر گزارا کرلیتے۔بارہ سال کی طویل مدت بعد جب آپ بہت زیادہ نحیف و لاغر ہوگئے، آپ کی والدہ ملاقات کیلئے تشریف لائیں۔ آپ کی حالت زار کو دیکھ کر بھائی سے شکوہ کناں ہوئی۔ یہ بات شیخ فرید الدین گنج شکر کے علم میں بھی نہیں تھی، ضعف و نقاہت کی وجہ دریافت کی گئی تب یہ بارہ سال کا چھپا ہوا راز افشاں ہوا کہ، اذن صریح نہ ہونے کی بنا پر آپ نے انتظام تو ضرور سنبھالا لیکن کبھی خود اس سے مستفید نہیں ہوئے۔ اس جواب سے خوش ہوکر آپ کے ماموں اور شیخ نے آپ کو ”صابر” کا لقب عطا فرمایاخطہ پوٹھوہار میں سلسلہ صابریہ کی عظیم روحانی شخصیت پیکرِدرد و گداز حضرت بابا فضل الدین شاہ چشتی صابری کلیامی ؒ جن کا وجود مبارک اپنے محب کا ذکر اس طرح سے کرتا کہ حق ہو حق ہو کی آوازیں سنائی دیتی اور جس طرح سوکھی لکڑی کے شہتیر جلتے ہیں، آپ کی ہڈیوں سے تڑاک تڑاک کی آوازین سنائی دیتی۔ آپ کے روحانی وجدان و مرتبہ کی خبر دینے والی معرفت اور طریقت کی ذی قدر ہستی پیر پٹھان حضرت شاہ سلیمان تونسوی ؒ ہیں۔ آپ بزرگ اور عالم پیری میں ہیں مقام ہے پاک پتن شریف میں زہد الانبیا بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ مزار اقدس، جناب شاہ سلیمان ؒ ملاقات کے لیے ایک ہجوم جمع ہے، بابا جی کلیامی بھی موجود ہیں اور اوئل جوانی کی عمر ہے، اپنے مصاحب کے ساتھ متمنی ملاقات ہیں۔ آپ ادب سے جناب پیر پٹھان سے ملتے ہیں، شاہ سلیمانؒغور سے آپ پر توجہ کرتے ہیں اور محبت سے فرماتے ہیں شام حجرہ ہیں ملاقات کے کیے چلے آنا، ساتھ اپنے ذوق سے کچھ لکھ لانا۔ باباجی میاں فضل الدین کلیامی ؒ حاضری کے لیے جاتے ہیں اور حسب ارشاد کچھ تحریرن لکھ کر ساتھ لاتے ہیں شاہ سلیمان نے جب پڑھا تو میاں فضل الدین کلیامیؒدیوانِ حافظ (فارسی زبان میں حافظ شیرازی کی مشہور کتاب) کا ایک شہر لکھ کر لائے کہ۔
نظر کردن بہ درویشاں بزرگی راہ منافی نیست
سُلَیمان با چُنیں حِشمت نظرہا داشت بر مورش
(ترجمہ)درویشوں اور تہی دستوں پر نظر و توجُّہ کرنا بُزُرگی و سَروَری کے مُنافی نہیں ہے حضرتِ سُلَیمان اپنے جاہ و جلال و شُکوہ و بُزُرگواری کے باوُجود حقیر و ناتواں چیونٹی پر توجُّہ و نظرِ عِنایت رکھا کرتے تھے۔پیر پٹھان ؒ نے آپ کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا کہ تمہاری روحانی پرواز کی اونچائی لامکاں ہے اور تمہارا مقام ولیوں میں بھی انوکھا ہو گا۔ پس اس دن سے آپ ”شہباذ لامکاں ” کہلائے۔باباجی کلیامی ؒکو یہ لقب آپ کے دادا پیر سید مظہر علی شاہ چشتی جلال آبادی ؒ نے آپ کی پیدائش سے ۱۲ سال قبل ہی عطا فرما دیا جب آپ کے مرشد حضرت حافظ محمد شریف ؒ کو دلی سے کلیام شریف جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ طریقت کا ایک شہباز پیدا ہو گا آسمان معرفت میں جس کی پروار لا انتہا ہو گی، تم نے اس کی روحانی تعلیم و تربیت کرنا ہے۔ علاقہ کلیام میں حضرت حافظ صاحب کے قیام، باباجی فضل الدین کلیامیؒ سے ملاقات اور روحانی تربیت، ان تمام پر کافی تحریرن لکھا جا چکا ہے۔ یہاں حضرت حافظ کے عرس مبارک (27 جون تا 6 جولائی 2021ع) کے حوالے سے آپ کے وقت وصال باباجی کلیامی کو عطا کی تکمیل کے حوالے سے چشم کشا واقعہ سے متعلق کچھ گزارشات۔ دلیل عرفانی حضرت حافظ محمد شریف ؒ اپنے عمر کے آخری ایام میں ہیں اور تب دق کا عارضہ لاحق ہے۔ ایک دن جب مجمع جمع ہے حضرت میاں فضل الدین کلیامیؒ، ان کے بھائی غلام رسول سمیت دیگر اہل خانہ جمع ہیں,ارشاد ہو تا ہے کہ میٹھی کھیر کی طلب ہے، غلام رسول کھیر لاتے ہیں، حافظ صاحب ؒ کھیرکا ایک لقمہ لیتے ہیں اور کھانسی کر کے وہی لقمہ بقیہ کھیر میں اُگل دیتے ہیں۔ غلام رسول صاحب کو وہ کھیر کھانے کو کہتے ہیں۔ غلام رسول خاموش ہو جاتے ہیں، حافظ صاحب دوبارہ، پھر سہ بارہ حکم دیتے ہیں تو غلام رسول کھانے سے معضرت کرتے ہوئے عزر پیش کرتے ہیں کہ آپ ایک متعدی بیماری (تب دق)میں مبتلا ہیں اور یہ کھیر کھانے سے میں اس ک شکار نہ ہو جاؤں۔ غلام رسول صاحب کی بات ابھی مکمل نہیں ہوتی اور باباجی فضل الدین کلیامی قدس سرہ فوراً حافظ محمدشریف کلیامیؒسے عرض گزار ہوتے ہیں کہ آپ کی اجازت ہو تو میں یہ کھیر کھا سکتا ہوں۔ حافظ صاحب مسکراتے ہوئے اجازت دیتے ہیں تو باباجی کلیامی ؒوہ ساری کھا لیتے ہیں حتیٰ کہ روایت ہے کہ وہ کھیر والا مٹی کا پیالا بھی پیس کر کھا لیتے ہیں۔ حافظ صاحب کے چہرے پر ایک وجدانی کیفیت آتی ہے، ارشاد فرماتے ہیں ” شہنشاہ کلیام” تم ہی کو بننا تھا یہ سہادت بھلا یہاں کون کے سکتا تھا۔ تم اس امتحان میں کامیاب ہو اللہ عزوجل نے تم پر اپنا مزید کرم کیا۔ آپ نے کئی ارشادات وصیت کے طور باباجی کلیامی کو ارشاد فرمائے جن میں ایک یہ کہ ہمارے اس باغ یعنی آستانوں کے خدام جو تمہارے اور میرے خدمت گزار ہیں وہ ان دونوں جہانوں میں ظاہراً باطنن ہمارے خدمتگزار ہیں وہ ہی ہمارے آساتانوں کی آمدنی کھائیں گے۔ میری تدفین کے معاملات بھی اللہ نے پورے فرما دے گا اور اسباب بہم ہوجائیں گے، اس کی فکر نہ کرنا۔ ادھر باباجی کلیامی پر کھیر کھاتے ہی ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور ججابات ظاہریہ ہٹ جاتے ہیں۔ شہنشاہ کلیام کا یہ لقب آج اسم بسمٰی ہے۔ آج بھی یہ آستان عشق معرفت کے منبع ہیں۔ اسم ذات اور عشق رسول ﷺ سے لبریز ان آستان نشینوں کے سینوں کی گرمی سے آج بھی کلیام شریف کی فضاہیں معطر ہیں۔ اہل نظر کا اس بستی کے قرب و جوار سے جب بھی گزر ہوا ان ہواؤں سے مخمور ہوا۔ مخلوق ان آستانوں پر حاضر ہوا کر اللہ رب العزت کے ان عشاق کے یہان سے فیوض و برکات پاتی ہے اور بالخصوص ایام عرس پر یہ عنایات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ حاضرین، عقیدت مند یہاں اللہ عزوجل سے ایمان کی کاملیت، گناہوں کی بخشش، توبتہً نسوح، فروانیے رزق، اصلاح اولاد، اخلاص اعمال، کشائش قبر اور عبادات کی یکسوئی طلب کرتی ہے۔ ان آستانوں سے وابستہ مریدین عام دنوں میں بالعموم اور ایام عرس میں بلخصوص عجب کیف ومستی میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شیخ کے آستان پر اللہ کے کرم و فضل کے رنگ میں رنگ کر اپنے قلوب کو گرماتے اور خیر پاتے ہیں اللہ ہمیں اپنے حبیب برحق نبی آلاخرمان جباب محمد الرسول اللہﷺ کے صدقے سے ان آستانوں سے اپنا کرم و فضل عطا فرمائے اور اعمال صحیہ کی تو فیق واستقامت عطا فرماتے ہوئے اخلاص کی دولت عطا فرمائے، بیماری سے شفا، وباؤں، آفات اور برے وقت سے بچائے۔ پُرفطن دور کے فتنوں سے پناہ بخشے۔ یہ خطہ پاک پاکستان، ایک نظریاتی ارض خداداد، اللہ اس کی محافظت فرماتے ہوئے اسے استحکام و ترقی سے نوازے۔ آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں