راجہ غلام قنبر
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ؟(غالب)
اردو کے اولین استاد شاعر میر اسد اللہ غالب نے اپنے بھتیجے عارف کی جواں سال مرگ نا گہانی پہ جو مرثیہ لکھا تھا اس مرثیہ کے مشہور و عظیم ترین شعر سے اپنی تعزیتی تحریر کو شروع کیا کیونکہ مرحوم ناصر بشیر راجہ کی موت بھی نا گہانی ہے اور جواں سال بھی جبکہ خود ناصر بشیر مرحوم بھی اردو ‘پنجابی اور پوٹھواری کی مستند شاعری کے بہترین حافظ و نا قد تھے اگر میں شاعر ہوتا اور یہ مرثیہ کا شعر غالب کا نہ ہوتا تو یقین کامل ہے برادر بزرگ ناصر بشیر راجہ جیسے رونق محفل اور درد دل رکھنے والے دوست کی مرگ نا گہانی پہ ایسے ہی شاعرانہ انداز میں نا صر بشیر راجہ کو خراج عقیدت پیش کرتا یہ چند سطور خراج عقیدت نہیں بلکہ اپنا کتھا رسس ہے دو دن سے لکھنے کی خواہش کے باوجود نہ قلم ساتھ دے رہا ہے نہ ہی ذہن اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے کہ اب ناصر بشیر راجہ کے بغیر بقیہ ماہ وسال گزارنے ہوں گے جب بھی کہیں قہقہ بلند ہوگا تو تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ذہن میں ابھرے گا کہ ایسے مواقع پر ناصر بشیر راجہ یوں کرتے تھے۔ جب بھی کوئی خرید و فروخت کا موقع ہوگا تو بھی نا چیز ناصر بشیر راجہ کی یاد مضطرب کرے گی۔ سیاست کے ہنگام چلیں گے تو دکھ کا سمندر اندر کے موسم میں طلاطم بپا کر دے گاکہ آہ! ناصر بشیر راجہ یہاں نہیں ناصر بشیر راجہ نے سوا چار عشروں کی زندگی میں وہ تمام منازل طے کیں جو ہر شخص کی خواہش تو ہوتی ہیں مگر ان کے لیے عمر خضر کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر خدا جن لوگوں کو سرفراز کرنا چاہتا ان کیلئے ماہ و سال کوئی معانی نہیں رکھتے ناصر بشیر راجہ زندگی کے ہر شعبہ پر نظر رکھنے والا ایک ہمہ جہت شخصیت کانام تھا سیاست پہ بولتا تھا تو تاریخ کیساتھ ‘مذہب پر جب رائے دینے کا وقت آتا تو دلیل کیساتھ ‘ شدت پسندی و انتہا پسندی سے با شعور شخص کی طرح نفرت کرتا تھا اور اس نفرت کا اظہار خوبصورت انداز بھی جانتا تھا‘ سکہ بند مذہبی جنونیوں کے حوالے سے اک جاندار موقف رکھتا تھا سماج کے بکھرتے تارو پو د پر جہاں وہ تشویش کا شکار تھا وہاں کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا کہ کوئی بھی بہتری ممکن ہو اور وہ نہ کرے جہاں وہ حد درجہ سخی تھا وہاں وہ اس بات میں بھی کامل تھا کہ کسی سے اختلاف رائے کیوجہ سے کینہ کو پروان نہ چڑھاتا‘ پیشہ ور بھکاریوں سے نفرت بھی کرتا مگر جہاں دل مطمن ہوتا وہاں نہ گنتا تھا نہ ہی اس طرح نمایاں انداز میں دیتا کہ لوگ متوجہ ہوں دوست احباب کے لیے ہر لمحہ تیار رہتا کہ جس وقت بھی کیسی بھی مشکل میں کوئی یاد کرئے ناصر بشیر راجہ ہمیشہ تیار ملتا صحافت سے ناصر بشیر راجہ کا تعلق نوے کی دہائی کے اوائل میں قائم ہوا جو دم مرگ جا ری رہا دوران صحافت کبھی بھی کسی کی پگڑی نہیں اچھالی مبہم خبر کو بھی اہمیت نہ دی ‘ حق بات پر درجنوں افراد کے سامنے ڈٹ جاتا کیا کیاتحریر کروں کہ ہر زاویہ زندگی کے حوالے سے اس کے اندر محاسن موجود تھے اللہ عزیق رحمت کرے عجب آزاد مرد تھاناصر بشیر راجہ کے تاریخی جنازہ میں حقیقت میں اک جم غفیر نے شرکت کی جہاں ہر دل مغموم اور ہر آنکھ اشکبار تھی جنازہ معروف علمی و روحانی شخصیت صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب (ممبر اسلامی نظریاتی کونسل )نے پڑھائی اہم شخصیات میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ‘صوبائی وزراء راجہ محمد علی‘قمر الااسلام راجہ سابق ڈپٹی اسپیکر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اسرار عباسی
ایڈوکیٹ‘ جسٹس سردار طارق سابق صوبائی پارلیمانی سیکرٹریز چوہدری کامران اسلم، کرنل شبیر اعوان، پی پی راہنما آصف شفیق ستی، شوکت عباسی، جبار ستی، فخر زمان چوہدری، سابق ایم پی اے محمود شوکت بھٹی، پی پی کے سابق و موجود ضلع تحصیل صدور ، چوہدری ایوب، چوہدری ظہیر، راجہ جاوید لنگڑیال، محمد اعجاز بٹ، سمیت درجنوں سابق ناظمین اور چیئرمینز یونین کونسلز نے شرکت کی علاوہ ازیں وکلاء اور صحافیوں کی بڑی تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کی بعد از جنازہ ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی سندھ سیدہ شہلہ رضا سابق جسٹس و سابق ایم پی اے شفقت عباسی، محمد بشارت راجہ، محمد ناصر راجہ سمیت دیگر سینکڑوں و کلاء صحافی ، سیاسی و سماجی قائدین روزانہ تعزیت کے لیے تا دم تحریر تشریف لا رہے ہیں ذاتی طور پر ایسا نا قابل تلافی نقصان کہ جس کو احاطہ تحریر میں لانے کی سکت نہیں آخر میں وہ مشہور زمانہ شعر کہ جس کی مجسم تصویر دیکھ رہا ہوں کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اللہ بحق محمد ﷺ و آل محمد ﷺ ناصر بشیر راجہ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور برادر بزرگ کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرمائے
بالخصوص مرحوم کے ماموں مسعود الحسن راجہ ‘ بھائی یاسر بشیر راجہ ایڈوکیٹ کو صبر جمیل عطا فرمائے مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور معصوم بیٹا چھوڑا ہے اللہ ان کو بھی عزم و حوصلہ اور صبر جمیل عطافرمائے ۔آمین
124