پروفیسر محمد حسین
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ والدین جو اپنی اولاد کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں خود بھوکے رہ کر انھیں کھلاتے ہیں اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال کر اپنے بچوں کے لیے آسائش اور آرام مہیا کرتے ہیں
اور اپنی ہر قیمتی چیز ان کی تعلیم ‘صحت ‘شادی اور دیگر ضروریا ت کے لیے قربان کر دیتے ہیں وہی والدین اپنا کل اثاثہ قربان کر کے ان کے لیے مہنگی ترین دکان سے خوشنما اور دیدہ ذیب پیکٹوں میں خوبصورت ترغیبات اور بہترین میٹھے ذائقے والا زہر خریدیں اور جیسے ہی ذرا بولنے اور سوچنے کے قابل ہوں
تو اسے کھلانا شروع کر دیں اور اس کے برسر روزگار ہونے تک اسے کھلاتے رہیں آپ بالکل یقین نہیں کریں گے لیکن طویل عرصے سے ہم ہر میٹھا زہر اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے اپنے بچوں کو کھلا رہے ہیں اور اس پر خوش اور شاداں بھی ہیں اس زہر پر پلی ہوئی پہلی نسل اب جوان ہو کر ہمارے سامنے آکر کھڑی ہو گئی ہے
اور وہ اسی زہر میں بجھے ہوئے تیروں جیسے سوال ہم سے کرتی ہے ہماری زندگی‘اخلاق ‘ماحول‘مذہب‘دین اور ہمارے تصورات کو دقیا نوسی ‘فرسودہ اور عقل سے بے بہرہ قرار دیتی ہے اور ہمیں چودہ سو سال پرانے خوابوں میں زندہ رہنے والا بے وقوف سمجھتی ہے ہم نے اپنی اس نسل کی تباہی و بربادی پر خود دستخط کیے اور اب مزید اس پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں گزری جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا اور ترقی کی ہو ‘ہمیں گزشتہ پچیس سال سے ایک سبق طوطے کی طرح پڑھایا گیا
کہ انگریزی کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں لیکن یہ سوال کسی نے سویڈن‘ناروے‘ڈنمارک‘آسٹریا‘ہالینڈ‘چین ‘جاپان اور جرمنی سے نہیں پوچھا جو اپنی زبانوں میں پی ایچ ڈی تک کرواتے ہیں سنگاپور نے انگریزی میں تعلیم کا تجربہ کیا اور بیس سال بعد وہ اب سر پیٹ رہے ہیں کہ ان کے ہاں تخلیقی تحقیق بالکل نہیں ہو رہی اور بالکل نقال بند بن کر رہ گئے ہیں اس لیے کہ آپ علم کسی دوسرے کی زبان میں حاصل نہیں کر سکتے ہیں
لیکن تحقیق کے دروازے اپنی ہی زبان سے کھلتے ہیں لیکن المیہ یہ نہیں کہ ہم نے انگریزی زبان میں بچوں کو تعلیم کیوں دلوائی سائنس کے مضمون تو ہماری مجبوری تھی کہ ہمارے ملک کے پانچ لاکھ اساتذہ نے اپنی زبان میں ایک کتب بھی ستر سالوں میں ترجمہ نہ کیں المیہ تو وہاں سے شروع ہوا جب ہم نے اپنی تباہی کے دوہرے پروانے پر دستخط کیے ایک تو سائنسی تعلیم انگریزی میں دلوائی جس سے تخلیقی تحقیق کا دروازہ ہم پر بند ہو گیا اور دوسرا پورے کا پورا نصاب ان کے ہاتھ میں دے دیا جو بچہ سکول میں داخل ہوتے
ہی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات اور پنے ماضی کے ہیروز کی کہانیاں پڑھ کر جوان ہوتا تھا جس کی زندگی کے ہر قدم پر اخلاقیات کا درس اسے اپنے مشابہہ کی پاکیزہ زندگی سے ملتا تھا اور ان کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتا تھا اب اس کے ہاتھ میں ان ہزاروں انگلش میڈیم سکولوں نے جو کتابیں تھما دی ہیں جن کے پڑھنے کے بعد انھیں اپنے ماحول‘ اس کی اقدار‘روایات اور طرز زندگی سے بو آنے لگتی ہے
اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور دنیا کے لیے پیدا ہوتے ہیں یہ چند ایک ایسی کتابیں ہیں جو ہمارے بچے پڑھتے ہیں اور ہم فخر سے کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے AْٓاورOلیول میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں آپ ان کی ساری کی ساری کتابوں کو پڑھیں آپ کو ان کی کتابوں میں ایسا ماحول ملے گا ایسی اخلاقیات ملیں گی اور اس طرح کی طرز زندگی نظر آئے گی جس کا نہ ہماری زمین سے کوئی تعلق ہے
نہ ہمارے آباؤ اجداد سے‘نہ ہمارے مذہب سے کوئی رختہ ہے اور نہ تصوردین ہے یہ فزکس‘کمیسٹری‘بیالوجی اور ریاضی نہیں کہ ہم کہیں کہ ان کے بغیر ہماری ترقی نہیں ہو سکی گی یہ وہ اخلاقیات ہیں جو کہانیوں کی صورت میں ہماری نسلیں پڑھ رہی ہیں انہی کے کرداروں کے روپ میں خوا ب دیکھ رہی ہیں انہیں اپنی زندگیوں کا آئیڈیل بناتی ہیں اس طرح کے ماحو ل اور دیسی طرز زندگی کو اپنے لیے رہنما تصور کرتی ہیں ظلم یہ نہیں کہ ہماری نسلیں یہ کہانیاں پڑھ رہی ہیں ظلم یہ ہے کہ وہ جس عمر میں پڑھ رہی ہیں
اسی عمر میں انسان اپنی زندگی بھر کے ہیروز کے تصورات ذہن میں پختہ کرتا ہے اس بڑا ظلم یہ کہ ہم سب کچھ اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے اپنی جمع پونجی قربان کر کے تحفے میں دے رہے ہیں اور عظیم ترین ظلم یہ کہ ان کہانیوں کے مقابل اپنے بچوں کے لیے کوئی اخلاقی ‘مذہبی اور دینی کہانیاں جو سچ پر مبنی ہوں ہم نے تخلیق ہی نہیں کی ذرا سوچئیے کہ ہم کتنے ظالم ہیں ؟؟؟